سجیت سہگل حاصل کے اشعار
روک کے اپنی آنکھ کے آنسو ہنس کر اس کو رخصت دی
تب سمجھے ہیں یارو ہم بھی شہنائی کیا ہوتی ہے
دیکھ تیری صحبتوں کا کیا اثر آیا ہے آج
ایک آوارہ پرندہ پھر سے گھر آیا ہے آج
کل تک جو کچھ نہ تھا مرا ایمان ہو گیا
اک عام آدمی سے میں انسان ہو گیا
مجھ کو جوڑا ہے توڑ کر خود کو
اس نے مجھ کو بکھرتا پایا جب
چھو بھی لیتی ہے مصیبت گر مری دہلیز کو
ایک ذرہ ہوں مگر چٹان ہو جاتا ہوں میں
یوں امتحان میرا لیتے رہے مسائل
اک ہاتھ پر تھا دریا اک ہاتھ پر تھا ساحل
ہو گئے بے بس کئی استاد بھی حالات سے
بک رہی چھپ چھپ کے یوں ہر روز بیچاری غزل
جب یہ پنے کتابوں کے گل جائیں گے
مول بھی کیا کہانی کے ڈھل جائیں گے
مجھ کو جوڑا ہے توڑ کر خود کو
اس نے مجھ کو بکھرتا پایا جب
جب یہ پنے کتابوں کے گل جائیں گے
مول بھی کیا کہانی کے ڈھل جائیں گے