Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Syed Aabid Ali Aabid's Photo'

سید عابد علی عابد

1906 - 1971 | لاہور, پاکستان

ممتازترین پاکستانی نقادوں میں شامل

ممتازترین پاکستانی نقادوں میں شامل

سید عابد علی عابد کے اشعار

728
Favorite

باعتبار

دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی

جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے

اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا

تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں

یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل

یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مل

انہیں کو عرض وفا کا تھا اشتیاق بہت

انہیں کو عرض وفا نا گوار گزری ہے

کچھ احترام بھی کر غم کی وضع داری کا

گراں ہے عرض تمنا تو بار بار نہ کر

کہتے تھے تجھی کو جان اپنی

اور تیرے بغیر بھی جئے ہیں

میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی

ان کے مرنے کا نام تاج محل

اے التفات یار مجھے سوچنے تو دے

مرنے کا ہے مقام یا جینے کا محل

وہ مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے تھے

یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا

در اخلاص کی دہلیز پر خم ہوں عابدؔ

ایک جینے کا سلیقہ دل بیباک میں ہے

واعظو میں بھی تمہاری ہی طرح مسجد میں

بیچ دوں دولت ایماں تو مزا آ جائے

ساقیا ہے تری محفل میں خداؤں کا ہجوم

محفل افروز ہو انساں تو مزا آ جائے

جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے

شوق دیدار کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا

آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں

آج دل کے نگر سے گزرے ہیں

شب ہجراں کی درازی سے پریشان نہ تھا

یہ تیری زلف رسا ہے مجھے معلوم نہ تھا

کوئی برسا نہ سر کشت وفا

کتنے بادل گہر افشاں گزرے

غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا

وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا

میرے جینے کا یہ اسلوب پتہ دیتا ہے

کہ ابھی عشق میں کچھ کام ہیں کرنے والے

یہ حادثہ بھی ہوا ہے کہ عشق یار کی یاد

دیار قلب سے بیگانہ وار گزری ہے

شرع و آئین کی تعزیر کے با وصف شباب

لب و رخسار کی جانب نگراں ہے کہ جو تھا

عشق کی طرز تکلم وہی چپ ہے کہ جو تھی

لب خوش گوئے ہوس محو بیاں ہے کہ جو تھا

غم کے تاریک افق پر عابدؔ

کچھ ستارے سر مژگاں گزرے

مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے

پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل

سبو اٹھا کہ یہ نازک مقام ہے ساقی

نہ اہرمن ہے نہ یزداں ہے دیکھیے کیا ہو

کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں

کوئی جواز تو ہو لطف بے سبب کے لئے

یہی دل جس کو شکایت ہے گراں جانی کی

یہی دل کار گہ شیشہ گراں ہوتا ہے

یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے

وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے

Recitation

بولیے