Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Syed Aabid Ali Aabid's Photo'

سید عابد علی عابد

1906 - 1971 | لاہور, پاکستان

ممتازترین پاکستانی نقادوں میں شامل

ممتازترین پاکستانی نقادوں میں شامل

سید عابد علی عابد کے اشعار

653
Favorite

باعتبار

دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا

تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں

یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل

یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مل

کہتے تھے تجھی کو جان اپنی

اور تیرے بغیر بھی جئے ہیں

انہیں کو عرض وفا کا تھا اشتیاق بہت

انہیں کو عرض وفا نا گوار گزری ہے

میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی

ان کے مرنے کا نام تاج محل

وہ مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے تھے

یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا

جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے

شوق دیدار کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا

واعظو میں بھی تمہاری ہی طرح مسجد میں

بیچ دوں دولت ایماں تو مزا آ جائے

ساقیا ہے تری محفل میں خداؤں کا ہجوم

محفل افروز ہو انساں تو مزا آ جائے

کچھ احترام بھی کر غم کی وضع داری کا

گراں ہے عرض تمنا تو بار بار نہ کر

آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں

آج دل کے نگر سے گزرے ہیں

میرے جینے کا یہ اسلوب پتہ دیتا ہے

کہ ابھی عشق میں کچھ کام ہیں کرنے والے

تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی

جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے

کوئی برسا نہ سر کشت وفا

کتنے بادل گہر افشاں گزرے

یہ حادثہ بھی ہوا ہے کہ عشق یار کی یاد

دیار قلب سے بیگانہ وار گزری ہے

در اخلاص کی دہلیز پر خم ہوں عابدؔ

ایک جینے کا سلیقہ دل بیباک میں ہے

مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے

پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل

اے التفات یار مجھے سوچنے تو دے

مرنے کا ہے مقام یا جینے کا محل

غم کے تاریک افق پر عابدؔ

کچھ ستارے سر مژگاں گزرے

شب ہجراں کی درازی سے پریشان نہ تھا

یہ تیری زلف رسا ہے مجھے معلوم نہ تھا

یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے

وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے

کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں

کوئی جواز تو ہو لطف بے سبب کے لئے

عشق کی طرز تکلم وہی چپ ہے کہ جو تھی

لب خوش گوئے ہوس محو بیاں ہے کہ جو تھا

سبو اٹھا کہ یہ نازک مقام ہے ساقی

نہ اہرمن ہے نہ یزداں ہے دیکھیے کیا ہو

شرع و آئین کی تعزیر کے با وصف شباب

لب و رخسار کی جانب نگراں ہے کہ جو تھا

یہی دل جس کو شکایت ہے گراں جانی کی

یہی دل کار گہ شیشہ گراں ہوتا ہے

غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا

وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے