تنویر سپرا کے اشعار
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے
-
موضوع : عورت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شاید یوں ہی سمٹ سکیں گھر کی ضرورتیں
تنویرؔ ماں کے ہاتھ میں اپنی کمائی دے
مل مالک کے کتے بھی چربیلے ہیں
لیکن مزدوروں کے چہرے پیلے ہیں
جو کر رہا ہے دوسروں کے ذہن کا علاج
وہ شخص خود بہت بڑا ذہنی مریض ہے
آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے
-
موضوع : مزدور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کبھی اپنے وسائل سے نہ بڑھ کر خواہشیں پالو
وہ پودا ٹوٹ جاتا ہے جو لا محدود پھلتا ہے
ہم حزب اختلاف میں بھی محترم ہوئے
وہ اقتدار میں ہیں مگر بے وقار ہیں
دیہات کے وجود کو قصبہ نگل گیا
قصبے کا جسم شہر کی بنیاد کھا گئی
میں اپنے بچپنے میں چھو نہ پایا جن کھلونوں کو
انہی کے واسطے اب میرا بیٹا بھی مچلتا ہے
تیری تو آن بڑھ گئی مجھ کو نواز کر
لیکن مرا وقار یہ امداد کھا گئی
کتنا بعد ہے میرے فن اور پیشہ کے مابین
باہر دانشور ہوں لیکن مل میں آئل مین
آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم
شاید اسی صورت ہی سکوں پائے مرا جسم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سب کی نگاہ میں ترے گودام آ گئے
اب اپنے ہاتھوں مال کی تقسیم کر نہ کر
تنویرؔ اب تو حلق سے بھونپو کا کام لے
بہرے ہوئے ہیں کان مشینوں کے شور سے