سعادت حسن منٹو کے 50 بہترین اقوال
اردو کے مشہور افسانہ
نگار سعادت حسن منٹو کے ۵۰ منتخب اور مشہور اقوال کا یہ مجموعہ آپ کو ضرور پسند آئے گا۔ یہ منٹو کے وہ چنندہ اقوال ہیں جو سماج، انسان، سیاست اور نام نہاد تہذیبی اقدار کے بارے میں سوچنے کے لیے نئی راہیں کھولتے ہیں۔
لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اس کے دام ادا نہیں کرتا۔
آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔
پہلے مذہب سینوں میں ہوتا تھا آج کل ٹوپیوں میں ہوتا ہے۔ سیاست بھی اب ٹوپیوں میں چلی آئی ہے۔ زندہ باد ٹوپیاں!
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔
ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور با عصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔
اگر ایک ہی بار جھوٹ نہ بولنے اور چوری نہ کرنے کی تلقین کرنے پر ساری دنیا جھوٹ اور چوری سے پرہیز کرتی تو شاید ایک ہی پیغمبر کافی ہوتا۔
ہندوستان کو ان لیڈروں سے بچاؤ جو ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔
عورت ہاں اور نہ کا ایک نہایت ہی دلچسپ مرکب ہے۔ انکار اور اقرار کچھ اس طرح عورت کے وجود میں خلط ملط ہو گیا ہے کہ بعض اوقات اقرار انکار معلوم ہوتا ہے اور انکار اقرار۔
اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا۔ عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا استرا نہیں کہہ سکتے۔۔۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے، مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔
اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریو ں اور بدروؤں کا ذکر کیو ں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ اگر ہم افیون، چرس، بھنگ اور شراب کے ٹھیکو ں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان کوٹھوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعمال کیا جاتا ہے؟
ہر حسین چیز انسان کے دل میں اپنی وقعت پیدا کر دیتی ہے۔ خواہ انسان غیر تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔
یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔
یاد رکھیے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لئے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجئے۔
جس عورت کے دروازے شہر کے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو اپنی جیبوں میں چاندی کے چند سکے رکھتا ہو۔ خواہ وہ موچی ہو یا بھنگی، لنگڑا ہو یا لولا، خوبصورت ہو یا کریہة المنظر، اس کی زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑ ہے۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے ہیں جو نرم نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑے کی ضربوں کی باتیں کرتے ہیں۔
مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر اس میں لپیٹ کر کسی اور مسئلے کو دیکھا جائے تو ہمیں بہت ہی مغز دردی کرنی پڑے گی۔
سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے نامور لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو جو ہر بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں یہ کہتے پھر تے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں۔
یاد رکھیے غربت لعنت نہیں ہے جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خود ملعون ہیں۔ وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھیتا ہے۔۔۔
یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کیریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لئے نکلتے ہیں۔۔۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے!
میں افسانہ اس لئے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری کی شراب کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے، یا میں نے غسل نہیں کیا، یا میں نے شراب نہیں پی۔
ہندوستان میں سیکڑوں کی تعداد میں اخبارات و رسائل چھپتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صحافت اس سرزمین میں ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئی ہے۔
جس طرح جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لئے کسرت کی ضرورت ہے، ٹھیک اسی طرح ذہن کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ذہنی ورزش کی ضرورت ہے۔
ویشیا کا وجود خود ایک جنازہ ہے جو سماج خود اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔
میں تو بعض اوقات ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حکومت اور رعایا کا رشتہ روٹھے ہوئے خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔
گداگری قانوناً بند کر دی جاتی ہے مگر وہ اسباب و علل دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کو اس فعل پر مجبور کرتے ہیں۔ عورتوں کو سر بازار جسم فروشی کے کاروبار سے روکا جاتا ہے مگر اس کے محرکات کے استیصال کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔
-
موضوعات : جنسی ضرورتاور 2 مزید
موجودہ نظام کے تحت جس کی باگ ڈور صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے، عورت خواہ وہ عصمت فروش ہو یا باعصمت، ہمیشہ دبی رہی ہے۔ مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے رائے قائم کرے۔
کوئی افسانہ یا ادب پارہ فحش نہیں ہو سکتا۔ جب تک لکھنے والے کا مقصد ادب نگاری ہے۔ ادب بحیثیت ادب کے کبھی فحش نہیں ہوتا۔
ہمیں اپنے قلم سے روزی کمانا ہے اور ہم اس ذریعے سے روزی کما کر رہیں گے۔ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم اور ہمارے بال بچے فاقے مریں اور جن اخباروں اور رسالوں میں ہمارے مضامین چھپتے ہیں، ان کے مالک خوشحال رہیں۔
میرا خیال ہے کہ کوئی بھی چیز فحش نہیں، لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہو سکتی ہے اگر ان کو فحش طریقے پر پیش کیا جائے۔
ہمارے افسانوی ادب میں جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے اسی فیصدی ایسی ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں اور اصل عورتوں میں وہی فرق ہے، جو ٹکسالی روپے اور جعلی روپے میں ہوتا ہے۔
پبلک ایسی فلمیں چاہتی ہے جن کا تعلق براہ راست ان کے دل سے ہو۔ جسمانی حسیات سے متعلق چیزیں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں مگر جن چیزوں کا تعلق روح سے ہوتا ہے، دیر تک قائم رہتی ہیں۔