Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aitbar Sajid's Photo'

غنائیت اور نغمگی کے ساتھ ہجر و وصال کی کیفیتوں سے بھری رومانی شاعری کے لیے مشہور

غنائیت اور نغمگی کے ساتھ ہجر و وصال کی کیفیتوں سے بھری رومانی شاعری کے لیے مشہور

اعتبار ساجد کے اشعار

12.8K
Favorite

باعتبار

بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں

آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں

مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے

منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ہیں

تعلقات میں گہرائیاں تو اچھی ہیں

کسی سے اتنی مگر قربتیں بھی ٹھیک نہیں

ابھی ریل کے سفر میں ہیں بہت نہال دونوں

کہیں روگ بن نہ جائے یہی ساتھ دو گھڑی کا

جس کو ہم نے چاہا تھا وہ کہیں نہیں اس منظر میں

جس نے ہم کو پیار کیا وہ سامنے والی مورت ہے

مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی

وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے

رہا کر دے قفس کی قید سے گھایل پرندے کو

کسی کے درد کو اس دل میں کتنے سال پالے گا

غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی

ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں

ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے

ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا

چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ

لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ

اتنا پسپا نہ ہو دیوار سے لگ جائے گا

اتنے سمجھوتے نہ کر صورت حالات کے ساتھ

کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجدؔ

میں رفتہ رفتہ خود کو کھو رہا ہوں

ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں

دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے

اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو

وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے

مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو مرے سارے رنگ اتار دو

پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے

ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے

پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے

باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے

میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری

دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا

رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا

تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار دو

میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو

یہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا

اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں

ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں

سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے

تعلق کرچیوں کی شکل میں بکھرا تو ہے پھر بھی

شکستہ آئینوں کو جوڑ دینا چاہتے ہیں ہم

دیئے منڈیر پہ رکھ آتے ہیں ہم ہر شام نہ جانے کیوں

شاید اس کے لوٹ آنے کا کچھ امکان ابھی باقی ہے

جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی

چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی

عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے

یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے

پہلے غم فرقت کے یہ تیور تو نہیں تھے

رگ رگ میں اترتی ہوئی تنہائی تو اب ہے

میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں

جنم دن ہے اکیلا رو رہا ہوں

گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر

اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ

یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم

اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم

برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی

کچھ تو گرد سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا

ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے

دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا

کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے

کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے

جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے

وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے