اجتبیٰ رضوی کے اشعار
افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن
ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے
زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا
یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہزار آرزو ہو تم یقیں ہو تم گماں ہو تم
قفس نصیب روح کی امید آشیاں ہو تم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مرے ساز نفس کی خامشی پر روح کہتی ہے
نہ آئی مجھ کو نیند اور سو گیا افسانہ خواں میرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
فتنے جگا کے دہر میں آگ لگا کے شہر میں
جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نہیں
شام ہوئی جلے چراغ اٹھ گئے راہ سے فقیر
جن کا کہیں کوئی نہیں رہ گئے رہ گزار میں
یہ کیسا ماجرا ہے ہر مصور نقش حیرت ہے
تری تصویر جب کھینچی مری تصویر اتر آئی
دل کی دھڑکن جو ہے مدار حیات
اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آگ پانی سے بھاپ اٹھتی رہی
ہم سمجھتے رہے محبت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
انسان کو دل ملا مگر کیا
اندھے کے ہاتھ میں دیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں ابھی چپ ہوں تو میخانے میں خاموشی ہے
کوئی پیغام تو دے اے لب ساغر مجھ کو
ایک دن رندوں نے مسجد میں نماز آ کے پڑھی
دوسرے دن اسے مے خانہ بنا کر چھوڑا
خوب تماشا ہم کو بنایا آپ تماشا آپ ہوئے
ہم کو رسوا کرنے نکلے کیسے رسوا آپ ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوں وہ قطرہ کہ نہیں یاد سمندر مجھ کو
مگر آتی ہے اک آواز برابر مجھ کو
اس حرص و ہوس کے میلے میں ہم جنس محبت لائے ہیں
سب سستے مال کے گاہک ہیں یہ مہنگا سودا کون کرے
گھونگھٹ الٹو کہ تمہیں پوج کے کافر ہو جائے
دل بد بخت جو ایمان سے بھی شاد نہیں
آگ ہے بجلی آگ ہیں ذرے آگ ہے سورج آگ ہیں تارے
ہم نے نہ کی تھی شوخ نگاہی آپ نے کیوں عالم کو جلایا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گھومتے کٹتا ہے کوچے میں ترے دن کا دن
بیٹھے کٹ جاتی ہے چوکھٹ پہ تری رات کی رات
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جینے کے لئے بلوائیں تمہیں تم مرتے دم آؤ بھیڑ لئے
جینے کی تمنا کون کرے مرنے کو تماشا کون کرے
یہ ہماری آپ کی دوریاں یہ کبھی کبھی کی حضوریاں
ہیں عجب طرح کی لگاوٹیں رہ و رسم دور و دراز میں
خرد کو خانۂ دل کا نگہباں کر دیا ہم نے
یہ گھر آباد ہوتا اس کو ویراں کر دیا ہم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خرد والوں کو کہنے دو کہ ہیں سات آسماں سر پر
جنوں والو ذرا ہمت کرو بس ایک زینا ہے
ہم تو آشفتہ سری سے نہ سنورنے پائے
آپ سے کیوں نہ سنوارا گیا گیسو اپنا
کھنڈر میں ماہ کامل کا سنورنا اس کو کہتے ہیں
تم اترے دل میں جب دل کو بیاباں کر دیا ہم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سنتے سنتے انہیں نیند آ گئی ناداں دل نے
شکوۂ ہجر کو افسانہ بنا کر چھوڑا
ایسی آباد تری بزم ہے اے جان نشاط
جیسی کعبہ کی سحر جیسی خرابات کی رات
ہمارے خوف کی خلاقیاں خدا کی پناہ
وہ بجلیاں ہیں نظر میں جو آسماں میں نہیں
روح کی گونج بنا لیتی ہے خود اپنا مقام
مجھ کو دیکھو کہ ہوا دار بھی منبر مجھ کو
چرانے کو چرا لایا میں جلوے روئے روشن سے
مگر اب بجلیاں لپٹی ہوئی ہیں دل کے دامن سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پکارتے ہیں کہ گونج اس پکار کی رہ جائے
دعا دعا تو کہی جائے گی اثر نہ سہی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
معنی و صورت وحدت و کثرت ذرہ و صحرا آپ ہوئے
آپ تو کچھ ہوتے ہی نہیں تھے کہیے کیا کیا آپ ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لکھا ہوا انہی ذرات کے صحیفوں میں
مرا فسانہ ہے لیکن مری زباں میں نہیں
رستے کی دوکان پہ رہرو ایک نشانی چھوڑ چلا
جس کوزے سے پیاس بجھائی اس کوزے کو توڑ چلا
دیا ہے غم کہ نچوڑے کبھی کبھی دل کو
زمین چشم ہوس ورنہ کیسے تر ہوگی
کبھی اس سمت کو بھی بہر تماشا نکلو
دل کا حیرت کدہ ایسا کوئی ویراں بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجلی بے نقاب اور کور آنکھیں کیا قیامت ہے
کہ سورج سامنے ہے اور سیہ بختی نہیں جاتی
زہد کی آستیں ٹٹول دیکھ کہاں صنم نہیں
سنگ سیاہ ناگزیر ورنہ حرم حرم نہیں
انہی رفیقان سست رو سے برے بھلے رسم و راہ نبھتی
مگر کیا دل نے ان کا پیچھا جو ہر قدم چھوڑے جا رہے ہیں
ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا
شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خدا پرستی کا بیج بو کر خودی کا دل میں فروغ دیکھو
یہیں سے جھوٹے خدا اگے ہیں بڑی خطرناک یہ زمیں ہے
اف یہ دراز دستئ ارمان مشت خاک
محمل میں گرد پڑتی ہے لیلیٰ کہاں رہے
اپنی تصویر مجازی کوئی رکھ دو کہ کہیں
کاروان نگہ شوق کو منزل ہو جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ کبر و ناز اب کیا جب سر بازار تم نکلے
مگر ہاں یہ کہو بہتوں نے دیکھا کم نے پہچانا
ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا
شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا
رہ نہ سکے خودی میں مست ہو نہ سکے خدا میں جذب
مفت ہوئے ذلیل و خوار کوچۂ اعتبار میں
اجاڑ ہو بھی چکا مرا دل مگر ابھی داغ دار بھی ہے
یہی خزاں تھی بہار دشمن جو یادگار بہار بھی ہے
روز ازل سے آپ کی میری کیسی رسم و راہ نبھی
اول اول ہم ہوئے شیدا آخر شیدا آپ ہوئے
جلوے کی بھیک دے کے وہ ہٹنے لگے تھے خود
دامن پکڑ لیا نگہ اعتبار نے
سجدہ وہ ہے بہ رب کعبہ
جس کو قید حرم نہیں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیدنی ہے یہ سراسیمگئ دیدۂ شوق
کہ ترے در پہ کھڑے ہیں ترا در یاد نہیں