Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sarvat Husain's Photo'

ثروت حسین

1949 - 1996 | کراچی, پاکستان

ثروت حسین کی ٹاپ ٢٠ شاعری

میں کتاب خاک کھولوں تو کھلے

کیا نہیں موجود کیا موجود ہے

کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا

کسی شاہ زادی کے عشق نے مرا دل ستاروں سے بھر دیا

مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے

ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

وہ اک سورج صبح تلک مرے پہلو میں

اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا

خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجے

کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے

میں اپنی پیاس کے ہم راہ مشکیزہ اٹھائے

کہ ان سیراب لوگوں میں کوئی پیاسا ملے گا

سوچتا ہوں کہ اس سے بچ نکلوں

بچ نکلنے کے بعد کیا ہوگا

شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک

کتنی محرابیں پڑتی ہیں کتنے در آتے ہیں

سایۂ ابر سے پوچھو ثروتؔ

اپنے ہم راہ اگر لے جائے

مرے سینے میں دل ہے یا کوئی شہزادۂ خود سر

کسی دن اس کو تاج و تخت سے محروم کر دیکھوں

میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے

بلا کا رنگ تھا رنگینیٔ قبا سے ادھر

بہت مصر تھے خدایان ثابت و سیار

سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کیے

بجھی روح کی پیاس لیکن سخی

مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے

ملنا اور بچھڑ جانا کسی رستے پر

اک یہی قصہ آدمیوں کے ساتھ رہا

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا

اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام

وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی

سیاہی پھیرتی جاتی ہیں راتیں بحر و بر پہ

انہی تاریکیوں سے مجھ کو بھی حصہ ملے گا

دو ہی چیزیں اس دھرتی میں دیکھنے والی ہیں

مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو

ثروتؔ تم اپنے لوگوں سے یوں ملتے ہو

جیسے ان لوگوں سے ملنا پھر نہیں ہوگا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے