aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "مشرب"
دپتی مشرا
شاعر
آشو مشرا
پلو مشرا
آلوک مشرا
ہرشت مشرا
مشرف عالم ذوقی
1962 - 2021
مصنف
پرنو مشرا تیجس
امولیہ مشرا
حیرت فرخ آبادی
امن جی مشرا
شیواوم مشرا انور
ترونا مشرا
آشوتوش مشرا ازل
الکا مشرا
رام درش مشرا
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میراغالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑاسمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
جناب داغؔ کے مشرب کو ہم سے تو پوچھوچھپے ہوئے ہیں یہ حضرت کسی کو کیا معلوم
مذہب ہے یہ کیسا کہ رہ شرع نہ جانی مشرب ہے یہ کیسا کہ پلاتے نہیں پانی
ایثار مشربہم نفس اہل قفس
بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ دنیا کے لئے اور بالخصوص بر صغیر کے لئے خاصہ ہنگامہ خیز تھا۔ نئی صدی کی دستک نے نئے افکار و خیالات کے لئے ایک زرخیز زمین تیّار کی اور مغرب کے توسیع پسندانہ عزائم پر قدغن لگانے کا کام کیا۔ اس پس منظر نے اردو شاعری کے موضوعات اور اظہار کےمحاورے یکسر بدل کر رکھ دئے اور اس تبدیلی کی بہترین مثال علامہ اقبالؔ کی شاعری ہے۔ اقبالؔ کی شاعری نے اس زمانے میں نئے افکار اور روشن خیالات کا ایک ایسا حسین مرقع تیار کیا جس میں شاعری کے جملہ لوازمات نے اسلامی کرداروں اور تلمیحات کے ساتھ مل کر ایک جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ لوگوں کو بیدار کرنے اور ان کے اندر ولولہ پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اقبالؔ کی شاعری نے عالمی ادب کے جیّدوں سے خراج حاصل کیا اور ساتھ ہی ساتھ تنازعات کا محور بھی بنی رہی۔ اقبال بلا شبہ اپنے عہد کے ایسے شاعر تھے جنہیں تکریم و تعظیم حاصل ہوئی اور ان کے بارے میں آج بھی مستقل لکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے بچوں کے لئے جو شاعری کی ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ان کی کئی نظموں کے مصرعے اپنی سادگی اور شکوہ کے سبب آج بھی زبان زد عام ہیں۔ مثلاً سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا یا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری کا آج بھی کوئی بدل نہیں۔ یہاں ہم اقبالؔ کے مقبول ترین اشعار میں سے صرف ۲۰ اشعار آپ کی نذر کر رہے ہیں۔ آپ اپنی ترجیحات سے ہمیں آگاہ کر سکتے ہیں تاکہ اس انتخاب کو مزید جامع شکل دی جا سکے۔ ہمیں آپ کے بیش قیمت تاثرات کا انتظار رہے گا۔
मशरबمشرب
a reservoir of water
पानी पीने का स्थान, मत, अक़ीदः ।
فلسفہ مغرب کی تاریخ
برٹرینڈ رسل
فلسفہ
تاریخ مشرب شطار
ڈاکٹر فضیل احمد
تذکرہ
مصباح الحکمت
محمد فیروز الدین
طب
شمارہ نمبر-005،006
ابو مسلم صحافی
Jun 1956مشرب، کراچی
پیام مشرق
علامہ اقبال
مجموعہ
انشائیہ کی روایت
محمد اسد اللہ
مضامین/ انشائیہ
مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ
محمد حسن
تنقید
مغرب سے نثری تراجم
مرزا حامد بیگ
ترجمہ
مشرق و مغرب کے نغمے
میراجی
تحقیق و تنقید
اقبال اور مغرب
آل احمد سرور
اقبالیات تنقید
اے میسج فروم دی ایسٹ
شاعری
شرح پیام مشرق
شرح
آتش رفتہ کا سراغ
ناول
عشرت خلد کے لیے زاہد کج نظر جھکےمشرب عشق میں تو یہ جرم ہے بندگی نہیں
لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں۔ یقیناً شعر میں ایسے خصائص ہیں جو نثر میں نہیں پائے جاتے۔ اور اگر شعر کی تعریف یا تحسین ان اصطلاحوں کے ذریعہ کی جاتی ہے یا کی جائے جن کا اطلاق نثر پر بھی ہو سکتا ہے، تو یہ تنقید کی کم زوری ہے۔ اب اسے کیا کیجیے کہ نہ صرف اردو تنقید، بلکہ بیش تر تنقید، شعر کے گرد طواف تو کرتی رہی ہے، لیکن اسے چھونے، ٹٹولنے اور اس کے جسم کے خ...
جگر کو مرے عشق خوں نابہ مشربلکھے ہے خداوند نعمت سلامت
جمّن شیخ اور الگو چودھری میں بڑایارانہ تھا۔ ساجھے میں کھیتی ہوتی۔ لین دین میں بھی کچھ ساجھا تھا۔ ایک کو دوسرے پر کامل اعتماد تھا۔ جمّن جب حج کرنے گئے تھے تو اپنا گھر الگو کو سونپ گئے تھے اور الگو جب کبھی باہر جاتے تو جمّن پر اپنا گھر چھوڑ دیتے۔ وہ نہ ہم نوالہ تھے نہ ہم مشرب، صرف ہم خیال تھے اور یہی دوستی کی اصل بنیاد ہے۔اس دوستی کا آغاز اسی زمانہ میں ہوا جب دونوں لڑکے جُمّن کے پدر بزرگوار شیخ جمعراتی کے روبرو زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ الگو نے استاد کی بہت خدمت کی خوب رکابیاں مانجھیں۔ خوب پیالے دھوئے ۔ان کا حقّہ دم نہ لینے پاتا تھا۔ان خدمتوں میں شاگرد انہ عقیدت کے سوا اور کوئی بھی خیال مضر نہ تھا۔جسے الگو خوب جانتا تھا۔ ان کے باپ پرانی وضع کے آدمی تھے۔ تعلیم کے مقابلے میں انھیں استاد کی خدمت پر زیادہ بھروسہ تھا۔وہ کہا کرتے تھے استاد کی دعا چاہیے جو کچھ ہوتا ہے فیض سے ہوتا ہے۔اور اگر الگو پر استاد کے فیض یا دعاؤں کا اثر نہ ہوا تو اسے تسکین تھی کہ تحصیل علم کاکوئی دقیقہ اس نے فروگزاشت نہیں کیا۔ علم اس کی تقدیر ہی میں نہ تھا۔ شیخ جمعراتی خوددعا اور فیض کے مقابلے میں تازیانے کے زیادہ قائل تھے اورجمّن پر اس کا بے دریغ استعمال کرتے تھے اسی کا یہ فیض تھا کہ آج جمّن کے قرب وجوار کے مواضعات میں پرشش ہوتی تھی ۔بیع نامہ یا رہن نامہ کے مسودات پر تحصیل کا عرائض نویس بھی قلم نہیں اٹھاسکتا تھا۔حلقہ کا پوسٹ مین کانسٹیبل اور تحصیل کا مذکوری یہ سب ان کے دست کرم کے محتاج تھے۔ اس لیے اگر الگو کو ان کی ثروت نے ممتاز بنادیا تھا۔ تو شیخ جمّن بھی علم کی لازوال دولت کے باعث عزت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔
ہم پیشہ وہم مشرب و ہمراز ہے میرامیں اس وقت صرف یہ پوچھنے حاضر ہوا تھا کہ آپ دہلی میں رہے ہیں تو شہنشاہ اقلیم سخن حضرت غالب سے تو ضرور ہی واقف ہوں گے۔‘‘ مجھے جھرجھری سی محسوس ہونے لگی اور میں نے بڑی بے اعتنائی سے جواب دیا، ’’جی ہاں سنا ہے کہ اس نام کے ایک بزرگ کا مزار دہلی ہی میں ہے۔‘‘ اپنا سر پیٹتے ہوئے بولے، ’’معاف کیجیے گا آپ نے بھی بے رحمی کی حد کردی! سنا ہے کہ اس نام کے ایک بزرگ کا مزار دہلی ہی میں ہے۔ ع جلوۂ کل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں۔ اجی آپ کو یہ بھی توفیق نہیں ہوئی کہ آپ اس بارگاہ فلک منزلت پر ع۔ رتبہ میں مہروماہ سے کم تر نہیں ہوں میں۔ سرعقیدت خم کر کے کم سے کم شرف قدم بوسی تو حاصل ہی کرلیتے۔ وہی مثل بارہ برس دہلی میں رہے اور ع سر جائے یار ہے نہ رہیں پر کہے بغیر۔ بھاڑ ہی جھونکتے رہے؟‘‘
چراندے ہو کر کہنے لگے ’’ آپ قائل ہو جاتے ہیں تو کج بحثی کرنے لگتے ہیں۔‘‘ جواباً عرض کیا ’’گرم ممالک میں بحث کا آغاز صحیح معنوں میںقائل ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ دانستہ دل آزاری ہمارے مشرب میں گناہ ہے۔ لہٰذا ہم اپنی اصل رائے کا اظہار صرف نشہ اور غصہ کے عالم میںکرتے ہیں۔ خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا، لیکن اگر یہ سچ ہے کہ کافی خوش ذائقہ ہوتی ہے تو کسی بچے کو پلا کر اس کی صورت دیکھ لیجئے۔‘‘
مشرب ہے مرا تیری طلب تیرا تصورمسلک ہے مرا صرف گدائی ترے در کی
وسعت مشرب نیاز کلفت وحشت اسدؔیک بیاباں سایۂ بال ہما ہو جائیے
مشرب نہیں یہ میرا کہ پوجوں بتوں کو میںشوق طلب نے دل کو صنم خانہ کر دیا
اہل جنوں کا اس لئے مشرب جدا رہاواقف نیاز عشق سے شیخ حرم نہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books