aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "खड"
مومن خاں مومن
1800 - 1852
شاعر
قتیل شفائی
1919 - 2001
خمار بارہ بنکوی
1919 - 1999
جوش ملیح آبادی
1898 - 1982
اختر شیرانی
1905 - 1948
بشر نواز
1935 - 2015
بہزاد لکھنوی
1900 - 1974
عالم خورشید
born.1959
شجاع خاور
1948 - 2012
راجہ مہدی علی خاں
1915 - 1966
طالب باغپتی
1903 - 1984
حیرت الہ آبادی
1835 - 1892
ابراہیم اشکؔ
born.1951
صبا افغانی
1922 - 1976
مصطفیٰ خاں شیفتہ
1806 - 1869
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیںوہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
’’کچھ تو ضرور کرتے ہو گے؟‘‘ شکیلہ یہ سوال کیے جا رہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا۔ جسے ا ب اسے کچّا کرنا تھا۔مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا،’’ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔شکیلہ کھکھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب سی تسکین ہوئی۔ اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پید...
رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا تو اتنا تو ثابت ہوگیا کہ یہ بائیسکل ہے لیکن مجمل ہیئت سے یہ صاف ظاہر تھا کہ ہل اور رہٹ اور چرخہ اور اسی طرح کی اورایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس سوراخ میں سے آمدور...
ان کا جملہ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ آنکھوں نے وہ دیکھا اور حواس نے وہ محسوس کیا کہ الامان الحفیظ! کار اچانک ایک بڑے پتھر سے ٹکرائی اور پیچھے ڈھلواں سڑک پر پھسلنے لگی پھر اس کے بعد کیا ہوا اس کا مجھے پتہ نہیں۔ میرے حواس جیسے کسی اتھاہ تاریکی میں ڈوب رہے تھے۔کارشاید کسی کھڈ میں جا گری ہو، شاید کسی پہاڑ سے ٹکرائی ہو، میں بیہوش ہو چکی تھی۔(۲)
کنپٹیوں کے بال تو بالکل سفید ہو چکے تھے اور دانتوں پر مسوڑوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ تلاوت کرتے وقت کئی بار دانتوں کی ریخوں میں سیٹیاں بج اٹھتی تھیں مگر آواز کا ٹھاٹھ وہی تھا۔ صحیح مخرج سے نکلے ہوئے حروف یوں بجتے تھے جیسے پیتل کی تھالی پر بلور کی گولیاں گر رہی ہوں۔ البتہ اس آواز میں ایک لرزش ضرور آ گئی تھی، جو پرانے نمازیوں کو بہت اجنبی معلوم ...
رغیبی شاعری زندگی کی مشکل گھڑیوں میں ایک سہارے کےطور پرسامنےآتی ہے اوراسے پڑھ کرایک حوصلہ ملتا ہے ۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجرکی بھی ہوسکتی ہیں اورعام زندگی سے متعلق بھی ۔ یہ شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اورایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔
یہاں ایسی 10 غزلیں دی جا رہی ہیں جسے سنتے ہوئے ہم ماضی کے ساۓ میں کھو جاتے ہیں
ترغیبی شاعری زندگی کی مشکل گھڑیوں میں ایک سہارے کےطور پرسامنےآتی ہے اوراسے پڑھ کرایک حوصلہ ملتا ہے۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجرکی بھی ہوسکتی ہیں اورعام زندگی سے متعلق بھی۔ یہ شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اورایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔
खडکھڈ
hole, cavity
تاریخ ادب اردو
جمیل جالبی
تاریخ
اردو زبان و قواعد
شفیع احمد صدیقی
غیر افسانوی ادب
اردو املا
رشید حسن خاں
اردو املا اور رسم الخط
فرمان فتح پوری
زبان
طلسم ہوشربا
منشی احمد حسین قمر
داستان
مقدمہ تاریخ زبان اردو
مسعود حسین خاں
لسانیات
تدوین تحقیق روایت
تحقیق
ادبی تحقیق
تنقید
راز حیات
مولانا وحیدالدین خاں
اسلامیات
راجپوت گوتیں
محمد افضل خاں
دیگر
اردو کیسے لکھیں
سیکھنے کے وسائل/ قواعد
اسلامی علوم
عبد الوارث خاں
خطوط غالب
مرزا غالب
مذہب اور سائنس
پیر صاحب میں ساتوں عیب شرعی تھے۔ مگر وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ جمیل نے جیب سے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور قالین پر رکھ دیا۔ ساتھ ہی لائٹر۔۔۔ اس پر پیر صاحب نے جمیل سے اس گجراتی کا تعارف کرایا، ’’مسٹر نٹورلال۔۔۔ آپ موتیوں کی دلالی کرتے ہیں۔‘‘ جمیل نے ایک لحظے کے لیے سوچا، کوئلوں کی دلالی میں تو انسان کا منہ کالا ہوتا ہے۔۔۔ موتیوں کی دلالی میں۔۔۔پیر صاحب ...
آنند!خط میں ایک دو دن دیر ہو جانے کی کوئی خاص وجہ نہیں، دفعتاً ہی میری صلاح کلکتہ جانے کی ہو گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ کسی ضروری کام سے اچانک اندرناتھ کلکتے جا رہا ہے۔ مجھے یہاں کام تو آج کل ہے نہیں۔ کالج بند ہے اور تھیسس کی طرف طبیعت بالکل نہیں لگتی اس لیے سوچا کلکتے ہی چلا جائے، دراصل اندرناتھ کی غیر موجودگی میں یہ دن کس طرح کٹ سکیں گے۔ یہ میں نہیں سوچ سکا۔ اس کی ہستی کچھ غیرمعمولی طور پر میری ہستی پر چھاتی گئی ہے۔ میرے خیالات، میری عادتیں، میرے کام، اب میرے نہیں رہے۔ وہ ویسے ہی بنتے گئے ہیں، جیسے اندر ناتھ چاہتا رہا ہے۔ دوسرے کے خیالات، اور عادتوں کو بدل دینے کا کچھ ایسا ہی گر اسے یاد ہے اور اب سمجھ لو، میں کلکتے جا رہا ہوں۔
ان کے علاوہ سیتا ملہوترا، برجیس، عبدالرحمن، بلیسر کور، پشپا راز داں، خورشید گوروالا، اور میجر آنند کی لڑکی گوری وغیرہ وغیرہ بھی اس ہل اسٹیشن کے سالانہ بیوٹی کمپی ٹیشن میں شامل تھیں۔ جو ابھی کلب کے لان میں شروع ہونے والا تھا۔ یہ خوبصورتی کا مقابلہ اس ہل اسٹیشن کا گویا سب سےبڑا قومی تیوہار ہوتا ہے۔ اس روز کلب کے لان میں سینکڑوں آدمی جمع ہو جاتے ہیں...
نہا دھو کر نیچے کے تین ساڑھے تین کپڑے پہنے۔ جوگیا روز کی طرح اس دن بھی الماری کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اور میں اپنے ہاں سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر دیکھنے لگا۔ ایسے میں دروازے کے ساتھ جو لگا تو چوں کی ایک بے سری آواز پیدا ہوئی۔ بڑے بھیا جو پاس ہی بیٹھے شیو بنا رہے تھے مڑ کر بولے۔ کیا ہے جگل؟ کچھ نہیں موٹے بھیا۔ میں نے انہیں ٹالتے ہوئے کہا، ’’گرمی بہت ہے‘‘ اور...
’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ نے کہا۔ سب آتش دان کے اور قریب ہو کے بیٹھ گئے۔ آتش دان پر رکھی ہوئی گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ بلیاں کشنوں میں منہ دیئے اونگھ رہی تھیں، اور کبھی کبھی کسی آواز پر کان کھڑے کر کے کھانے کے کمرے کے دروازے کی طرف ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر دیکھ لیتی تھیں۔ صاحب خانہ کی دونوں لڑکیاں نٹنگ م...
پروفیسر یہ سنگلاخ پہاڑ دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ ایسے خالص پہاڑ، جن میں پہاڑ کے علاوہ کچھ نہ ہو، دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ مرزا نے بہتیرا سمجھایا کہ پہاڑ اور ادھیڑ عورت در اصل آئل پینٹنگ کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔ انہیں ذرا فاصلے سے دیکھنا چاہئے۔ مگر پروفیسر دور کے جلوے کے قائل نہیں۔ بے شجر پہاڑوں سے ان کی بیزاری کم کرنے کی غرض سے مرزا نے ایک دن غروب ...
دنیا میں ایسی بہوئیں ہوں تو کوئی کاہے کو جئے۔۔۔ اے لو دوپہر ہوئی اور لاڈو چڑھ گئیں کوٹھے پر، ذرا ذرا سے چھوکرے اور چھوکریوں کا دل آن پہنچا پھر کیا مجال ہے جو کوئی آنکھ جھپکا سکے۔’’بہو۔۔۔ق۔۔۔‘‘ بڑھیا نےبلغم بھرے حلق کو کھڑکھڑا کر کہا۔۔۔ ’’اری او۔۔۔ بہو!‘‘
اس پہاڑی پر وہ فقط دو ہی گھر تھے۔ مکان تو اصل میں ایک ہی تھا۔ مگر بعد میں اس کے مالک نےاس کے بیچوں بیچ لکڑی کی ایک پتلی سی دیوار کھڑی کرکے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اور اب اس میں الگ الگ دوخاندان رہتے تھے۔ پہاڑوں پر مکان ویسے ہی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس پر دو حصوں میں بٹ جانے سے اس کی مکانیت محض نام کو رہ گئی تھی۔ چنانچہ اس کے رہنے والوں ک...
مرزا صاحب چپ ہوگئے، بندؔو میاں اور منظور حسین بھی چپ تھے، شجاعت علی کے ہونٹوں میں حقّے کی نے ساکت ہو کر رہ گئی اور گڑڑ گڑ ڑ کے آواز بغیر کسی نشیب و فراز کے اٹھ اٹھ کر اندھیرے ہوتے ہوئے چبوترے کے سکوت کا جز بنتی جا رہی تھی۔ مرزا صاحب کچھ اس انداز کہ بہت دور نکل گئے تھے اور اب ایک ساتھ واپس آئے ہیں، پھر بولے، ’’سواریاں ختم سفر ختم، سفر کو اب طبعیت ہی...
(۳)تھوڑی دیر بعد نواب صاحب نے پینترے بدلنا شروع کیے۔ ان کاگھٹنا میری پیٹھ میں بری طرح گڑ رہا تھا۔ لیڈی ہمت قدر ایک ہاتھ سے اپنی نازک چھتری لگائے تھیں اور دوسرے ہاتھ سے یکے کا ڈنڈا پکڑے تھیں۔ ان کے دونوں ہاتھ کبھی کے دکھ چکے تھے۔ ہر جھٹکے پر وہ اس طرح چیختی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ گر گئیں۔ نواب صاحب کے موذی گھٹنے کے گڑنے کی وجہ سے میں دھیرے دھیرے آگے سرکتا جاتا تھا۔ مگر جتنا میں ہٹتا اتنا شاید نواب صاحب کا گھٹنا اور بڑھ جاتا تھا۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ کیا کروں جو اس گھٹنے سے پناہ ملے۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books