aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "दान-ए-कार"
اے منجم عبث یہ نادانیتو کچھ اندازہ دان کار نہیں
سینما ہال کے بک سٹال پر کھڑے میں اس میٹھے رس کی گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ایک آنکھ سے انگریزی رسالے کو دیکھتے ہوئے دوسری آنکھ سے ان عورتوں کو دیکھتا ہوں جنہیں میں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجوں کی ٹکٹوں والی کھڑکی پر دیکھا تھا۔ اس سے پہلے انہیں سبز رنگ کی لمبی کار میں نکلتے دیکھا تھا اور اس سے پہلے بھی شاید انہیں کسی خواب کے ویرانے میں ...
اس سے پہلے میں نے راجدہ کو کہیں اور نہیں دیکھا تھا۔ بھانجی نے بتایا وہ عظمی کے سسرال سے ہے اور میں نے سوچا اگر وہ عظمی کے سسرال سے نہ ہوتی تو مجھے کہاں ملتی؟ ویسے راجدہ کا مجھ سے ملنا ناگزیر تھا۔ یہ میں اب سوچتا ہوں۔ شام کے کھانے کے بعد سیر کا پروگرام بن گیا اور ہم سب کمپنی باغ کی طرف چل پڑے۔باغ ابھی فاصلے پر تھا کہ شام کے ٹھنڈے سائے ماند پڑ گیے اور مرطوب ہوا کے نیم جھونکے ہمارے جسموں میں چھوتے باغ میں داخل ہوتے ہی ہم نے چنبیلی اور مولسری کے پھولوں اور ایسی مٹی کی خوشبو سونگھی جسے نہر کے پانی سے سیراب کیا گیا ہو اور جہاں سے سارا دن تیز دھوپ میں گرم بخارات اٹھتے رہے ہوں۔ شہر کی نسبت یہاں کی فضا آزاد اور مرطوب تھی۔ گرم ہوا بڑی نرمی سے چل رہی تھی اور گھنے درختوں کی گہری سبز شاخیں بےمعلوم انداز میں ہل رہی تھیں۔۔۔ سڑک پر چھڑکاؤ کیا ہوا تھا اور بجلی کے پرانے لیمپوں کی زرد روشنی میں وہاں سے نظر آنے والی بھاپ سی خارج ہو رہی تھی۔ پسینوں پر پسینے آ رہے تھے اور عورتیں برقعوں سے پریشان ہو رہی تھیں۔ پردہ کلب کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے اپنے برقعے اس پھرتی سے اتارے جیسے ان میں خطرناک بیماریوں کے جراثیم پیدا ہو گیے ہوں اور لپک کر کلب میں داخل ہو گئیں۔ اندر چاروں طرف پردہ ہی پردہ تھا اور کلب کا کہیں نشان تک نہیں تھا۔ گھاس کے معمولی سے خطے کے عین وسط میں آم کا ایک درخت تھا۔ جس کے پاؤں میں ایک دو شکستہ بنچ پڑے تھے اور دوسری طرف دو پینگیں لٹک رہی تھی۔ عورتوں کو یہاں صرف دو چیزیں کھینچ لاتی تھی۔ پہلی چیز کلب کی پینگیں اور دوسری برقعہ سے نجات۔
یوں تو نشاط کار کی سرشاریاں ملیںانجام کار کا بھی رہا ڈر کبھی کبھی
عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا
کمر کلاسیکی شاعری میں ایک دلچسپ موضوع ہے ۔ شاعری کے اس حصے کو پڑھ کر آپ شاعروں کے تخیل کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے ۔ معشوق کی کمر کی خوبصورتی ، باریکی یا یہ کہا جائے کہ اس کی معدومی کو شاعروں نے حیرت انگیز طریقوں سے برتا ہے ۔ ہم اس موضوع پر کچھ اچھے اشعار کا انتخاب پیش کر رہے ہیں آپ اسے پڑھئے اور عام کیجئے ۔
दान-ए-कारدان کار
donation of work
الٰہی دل وہ دے جو محرم اسرار ہو جائےکہیں ایسا نہ ہو جینا مرا بیکار ہو جائے
صاحب میں دوبارہ لکھتا ہوں کہ اب وہ زمانہ نہیں کہ ادھر متھراداس سے قرض لیا۔ ادھر درباری مل کو مارا۔ ادھر خوب چند چین سکھ کی کوٹھی جا لوٹی۔ ہر ایک کے پاس تمسک مہری موجود۔ شہد لگاؤ، چاٹو۔ پھر کبھی خان نے کچھ دے دیا کبھی الور سے کچھ دلا دیا۔ میرا مختار کار بنیا سود ماہ بماہ چاہے۔ گویا سود جدا، مول جدا، چوکیدار جدا، بی بی جدا، بچے جدا، شاگرد پیشہ جدا، آ...
فصیل شہر انا میں شگاف میں نے کیایہ کارنامہ خود اپنے خلاف میں نے کیا
کتنے مصروف ہیں مسرور نہیں پھر بھی یہ لوگہے یہ کیا سلسلۂ کار زیاں ہم نفسو
کسی دانا یا نادان کا مقولہ ہے کہ جھوٹ کے تین درجے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔ لیکن ہم یہ نہیں مانتے۔ اعداد و شمار بڑی اچھی چیز ہیں۔ اعداد و شمار کی برکت سے اب ہم یہ جانتے ہیں کہ سورج کتنے کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور چاند کی روشنی کتنے سال میں ہم تک پہنچتی ہے۔ بے شک اس سے سورج کی روشنی پر چنداں اثر نہیں پڑا نہ چاند کی چاندنی متاثر ہوئی ہے۔...
اخبار میں بھونکتے کتے سے بچنے کا نسخہ شائع ہوا ہے۔ لکھا ہے، ’’اگر آدمی ساکت کھڑا ہو جائے۔ بازو اور ہاتھ نیچے کی طرف سیدھے کرلے اور دوسری طرف دیکھنے لگے تو بھونکتا ہوا کتا کچھ دیر کے بعد خاموش ہو جائے گا اور پھر وہاں سے چلاجائے گا۔‘‘اخبار نے یہ نہیں لکھا کہ یہ نسخہ کہاں سے لیا گیا ہے۔ اوپر فقط ’’جدید طبی تحقیق‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ بھی مذکور نہیں، آیا کتوں کو بھی مطلع کردیا گیا ہے کہ ان پر ضابطہ اخلاق کی پابندی ضروری ہے۔ یہ اعتراض بھی کچھ لوگ کریں گے کہ اگر انسان حسب ہدایت بھیگی بلی بن کر منہ دوسری طرف کر کے کھڑا ہو جائے اور کتا اس کی ٹانگ لے لے تو ایڈیٹر اخبار ہذا کس حد تک ذمہ دار ہوگا۔ ہمارے نزدیک تو یہ اعتراض بے محل اور ناواجب ہے۔ بھونکنا ایک فعل ہے اور کاٹنا الگ۔ کتا کاٹ لے تو سیدھا سیدھا اسپتال جاکر چودہ انجکشن پیٹ میں لگوا لیجیے اور مزے کیجئے۔ اصل کوفت تو کتے کی عف عف سے ہوتی ہے اور اس کے لیے یہ نسخہ مجرب ہے۔
ایک بزرگ اپنے نوکر کو فہمائش کر رہے تھے کہ تم بالکل گھامڑ ہو۔ دیکھو میر صاحب کا نوکر ہے، اتنا دور اندیش کہ میر صاحب نے بازار سے بجلی کا بلب منگایا تو اس کے ساتھ ہی ایک بوتل مٹی کے تیل کی اور دو موم بتیاں بھی لے آیا کہ بلب فیوز ہو جائے تو لالٹین سے کام چل سکتا ہے۔ اس کی چمنی ٹوٹ جائے یا بتی ختم ہو جائے تو موم بتی روشن کی جا سکتی ہے۔ تم کو ٹیکسی لینے...
ہمارا شمار ان لوگوں میں ہے جن کاذکر پطرس نے اپنے مضمون ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی۔‘‘ میں کیا ہے۔ اگر یہ مضمون ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے کا نہ ہوتا، اگر پطرس مرحوم کے نیاز بھی حاصل رہے ہوتے، تو یہی سمجھتے کہ انہوں نے یہ ہمارے بارے میں لکھا ہے۔ اٹھنا نمبر ایک اور اٹھنا نمبر دو ہمیشہ سے ہماری زندگی کا معمول رہے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نے پطرس ک...
قدسیؔ تو اکیلا نہیں میدان سخن میںہر کوچہ و بازار میں فنکار بہت ہیں
چارہ گر تیری توجہ مجھے درکار نہیںکارگر جس پہ دوا ہو یہ وہ آزار نہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books