aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "darya"
پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی
1811 - 1845
شاعر
دارا شکوہ
طفل دارا
بانگ درا پبلیکیشنز، حیدرآباد
ناشر
طفیل دارا
ادارہ تحقیق، دریاگنج، نئی دہلی
منشی دیا نرائن نگم
1882 - 1942
مصنف
1948 - 1992
مطبع دریائے لطافت، کانپور
دیاکشن گنجور
دیا نند ورما
طلبۂ درجۂ سادسہ، اعظم گڑھ
پنڈت دیا شنکر دوبے
بھائی دیا سنگھ اینڈ سنز تاجران کتب، لاہور
پرنٹ سینٹر دریا گنج، نئی دہلی
دریائے مدعا کا لائے ہیں تھاہ جب سیںہر بوند اشک کا ہے در عدن ہمارا
دریائے موج خیز بھی جس پر سوار تھاہونا پڑا سوار اسی ناؤ پر مجھے
ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہےدریائے موج خیز جہاں کا سراب ہے
یوں تو کہنے کو ایک قطرہ ہوںسچ تو یہ ہے کہ جزو دریا ہوں
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریانہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
دریا کا استعمال کلاسیکی شاعری میں کم کم ہے اور اگر ہے بھی تو دریا اپنے سیدھے اور سامنے کے معنی میں برتا گیا ہے ۔ البتہ جدید شاعروں کے یہاں دریا ایک کثیرالجہات استعارے طور پر آیا ہے ۔ وہ کبھی زندگی میں سفاکی کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے کہ جو اس کے سامنے آتا ہے اسے بہا لے جاتا اور کبھی اس کی روانی کو زندگی کی حرکت اور اس کی توانائی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ دریا پر ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو یقیناً پسند آئے گا ۔
ریختہ کی جانب سے عالمی یوم خواتین کے موقع پر تمام خواتین کو خراج عقیدت پیش کیاجاتا ہے۔
डरायाڈرایا
Fear, Terror
दरियाओدریاؤ
rivers; oceans
दरियाدریا
river
डरियोڈریو
fear
آگ کا دریا
قرۃالعین حیدر
ناول
چھٹا دریا
فکر تونسوی
ڈائری
بانگ درا
علامہ اقبال
شاعری
یوسف سلیم چشتی
شرح
شرح بانگ درا
شفیق احمد
دل دریا سمندر
واصف علی واصف
مضامین
خواجہ حمید یزدانی
موج دریا
عرفان صدیقی
گلزار نسیم
مثنوی
مثنوی گلزار نسیم
دریائے لطافت
انشا اللہ خاں انشا
زبان
دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئےالطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھناجہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نےبحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوںتم دریا سے بھی گہرے ہو
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجےاک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیراغیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتےگھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانادرد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگیتیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔپھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books