ہر روح پس پردۂ ترتیب عناصر
ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
اب عناصر میں توازن ڈھونڈنے جائیں کہاں
ہم جسے ہم راز سمجھے پاسباں نکلا ترا
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
میں رات سست عناصر سے تنگ آ گیا تھا
مری حیات فسردہ میں رنگ آ گیا تھا
موت کی ایک علامت ہے اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا
-
موضوع : موت
عناصر کی کوئی ترتیب قائم رہ نہیں سکتی
تغیر غیر فانی ہے تغیر جاودانی ہے
کون تحلیل ہوا ہے مجھ میں
منتشر کیوں ہیں عناصر میرے
ایک ہستی مری عناصر چار
ہر طرف سے گھری سی رہتی ہے
عناصر کی گھنی زنجیر ہے
سو یہ ہستی کی اک تعبیر ہے
اختلاط اپنے عناصر میں نہیں
جو ہے میرے جسم میں بیگانہ ہے
زمیں نئی تھی عناصر کی خو بدلتی تھی
ہوا سے پہلے جزیرے پہ دھوپ چلتی تھی
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
تشریح
چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:
ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ
اب عناصر میں اعتدال کہاں
انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : زندگیاور 2 مزید