ریختہ پر اشعار
’ریختہ‘ اردو زبان کے
پرانے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ ریختہ کے لغوی معنی ملی جلی چیز کے ہوتے ہیں ۔ اردو زبان چونکہ مختلف بولیوں اور زبانوں سے مل کر بنی تھی اس لئے ایک زمانے میں اس زبان کو ریختہ کہا گیا ۔ یہاں آپ ایسے اشعار پڑھیں گے جن میں اردو کو اس کے اسی پرانے نام سے پکارا گیا ہے ۔
جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ
یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں
اب نہ غالبؔ سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا
بن گیا میں بھی نشانہ ریختہ کے تیر کا
یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے
کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہے طرز علی حزیںؔ کا
کیا ریختہ کم ہے مصحفیؔ کا
بو آتی ہے اس میں فارسی کی
جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی
گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
آنکھیں نہ چرا مصحفیٔؔ ریختہ گو سے
اک عمر سے تیرا ہے ثنا خوان ادھر دیکھ
قائمؔ میں ریختہ کو دیا خلعت قبول
ورنہ یہ پیش اہل ہنر کیا کمال تھا
طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب
ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا
موئے نے منہ کی کھائی پھر بھی یہ زور زوری
یہ ریختی ہے بھائی تم ریختہ تو جانو
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
جب سے معنی بندی کا چرچا ہوا اے مصحفیؔ
خلطے میں جاتا رہا حسن زبان ریختہ
کیوں نہ آ کر اس کے سننے کو کریں سب یار بھیڑ
آبروؔ یہ ریختہ تو نیں کہا ہے دھوم کا
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
-
موضوع : میر تقی میر
قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر
یار کے آگے پڑھا یہ ریختہ جا کر نظیرؔ
سن کے بولا واہ واہ اچھا کہا اچھا کہا
اے مصحفیؔ استاد فن ریختہ گوئی
تجھ سا کوئی عالم کو میں چھانا نہیں ملتا
قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اک بات لچر سی بزبان دکنی تھی
پیچ دے دے لفظ و معنی کو بناتے ہیں کلفت
اور وہ پھر اس پہ رکھتے ہیں گمان ریختہ
مصحفیؔ گرچہ یہ سب کہتے ہیں ہم سے بہتر
اپنی پر ریختہ گوئی کی زباں اور ہی ہے
ریختہ گوئی کی بنیاد ولیؔ نے ڈالی
بعد ازاں خلق کو مرزاؔ سے ہے اور میرؔ سے فیض
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں