پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے : میر تقی میر
میرتقی میر کی پیدائش کےتین سو سال پورےہونےوالے ہیں اور اس موقع پر ریختہ کی جانب سے ایک ہفتےتک ان کی زندگی اور شاعری کو یاد کر کے ہیش ٹیگ " Z ikreMeer"کے نام سے انہیں خراج پیش کیا جاتا رہےگا ۔اس سلسلے کی پہلی کڑی میں میرصاحب کے چند مشہور اشعار کا کلیکشن حاضر خدمت ہے ۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
تشریح
میر اپنی سہل شاعری میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ جس سہولت سچائی اور آسانی کے ساتھ وہ مضامین کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔
اس شعر میں میر نے بڑی معصومیت اور سادگی کے ساتھ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف بیان کی ہے۔ ظاہر ہے کہ حسن کی تعریف کے بیان میں محبوب کے ہونٹوں کا بیان بہت اہم شے ہے۔ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کی نازکی ملائمیت یا softness کو بیان کرتے ہوئے تشبیہ دیتے ہیں اور وہ تشبیہ گلاب کے پھول کی پنکھڑی سے دیتے ہیں۔ گلاب کی پنکھڑی بہت نازک ہوتی ہیں، بہت نرم ہوتی ہیں اتنی نرم اور اتنی نازک ہوتی ہیں کہ میر کو اپنے محبوب کے ہونٹوں کی بناوٹ بالکل گلاب کی پنکھڑی کی مانند نظر آتی ہے ۔petals of the rose انتہائی مناسب تشبیہ ہے، جو محبوب کے ہونٹوں کے لیے دی جاسکتی ہے اور میر نے اس مناسب ترین تشبیہ کا استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اُپما کے چناؤ میں بھی ان کا کوئی بدل نہیں ہے ۔
آسان لفظوں میں کہا جائے تو بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کی طرح محسوس کرتے ہیں اس کی نازکی کی یا اس کی ملائمیت یا softness کی وجہ سے اور اس طرح اس تشبیہ نے محبوب کے حسن کا بہترین نقشہ کھینچ دیا ہے۔
سہیل آزاد
تشریح
میر اپنی سہل شاعری میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ جس سہولت سچائی اور آسانی کے ساتھ وہ مضامین کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔
اس شعر میں میر نے بڑی معصومیت اور سادگی کے ساتھ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف بیان کی ہے۔ ظاہر ہے کہ حسن کی تعریف کے بیان میں محبوب کے ہونٹوں کا بیان بہت اہم شے ہے۔ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کی نازکی ملائمیت یا softness کو بیان کرتے ہوئے تشبیہ دیتے ہیں اور وہ تشبیہ گلاب کے پھول کی پنکھڑی سے دیتے ہیں۔ گلاب کی پنکھڑی بہت نازک ہوتی ہیں، بہت نرم ہوتی ہیں اتنی نرم اور اتنی نازک ہوتی ہیں کہ میر کو اپنے محبوب کے ہونٹوں کی بناوٹ بالکل گلاب کی پنکھڑی کی مانند نظر آتی ہے ۔petals of the rose انتہائی مناسب تشبیہ ہے، جو محبوب کے ہونٹوں کے لیے دی جاسکتی ہے اور میر نے اس مناسب ترین تشبیہ کا استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اُپما کے چناؤ میں بھی ان کا کوئی بدل نہیں ہے ۔
آسان لفظوں میں کہا جائے تو بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کی طرح محسوس کرتے ہیں اس کی نازکی کی یا اس کی ملائمیت یا softness کی وجہ سے اور اس طرح اس تشبیہ نے محبوب کے حسن کا بہترین نقشہ کھینچ دیا ہے۔
سہیل آزاد
-
موضوعات : لباور 1 مزید
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
تشریح
تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا (از سعادت خاں ناصر لکھنوی) میں میر کے باب میں لکھا ہے کہ میر اپنی کم عمری کے زمانہ میں،جب تک خان آرزو کی صحبت میں رہے، کبھی کبھی دو چار شعر ان کی خدمت میں پڑھتے تھے، جنھیں وہ پسند کرتے تھے اور تاکید شعر و سخن کی زیادہ سے زیادہ کرتے تھے۔" ایک دن خان آرزو نے کہا کہ کہ آج مرزا رفیع آئے اور یہ مطلع نہایت مباہات کے ساتھ پڑھ گئے/
چمن میں صبح جو اس جنگجو کا نام لیا / صبا نے تیغ کا آب رواں سے کام لیا
میر صاحب نے اس کو سن کر بدیہ یہ مطلع پڑھا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا۔۔۔۔۔۔۔ دل ستم زدہ کو اپنے تھام تھام لیا(مطبوعہ نسخوں میں "اپنے کی جگہ "ہم نے" ہے )
خان آرزو فرط خوشی سے اچھل پڑے اور کہا خدا چشم بد سے محفوظ رکھے
آئیے اب میر کے اس شعر پر غور کریں۔ اس سیدھے سادے شعر میں آخر ایسی کیا خوبی ہے کہ خان آرزو جیسا صاحب نظر اسے سن کر فرط خوشی سے اچھل پڑا،شفقت کے اظہار یا حوصلہ افزائی کے کئے تھوڑی سی واہ واہ کافی تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیفیت کا شعر ہے جو شاعر کے دل سے نکل کر سیدھا سامع کے دل میں جاتا ہے اور یہی اس شعر کی خوبی ہے۔ لیکن یہ بات تو ہم واردات قلبی کے کسی بھی شعر کے بارے میں کہہ سکتے ہیں، جو ہم کو پسند ہو۔ تو کیا اس شعر میں بس اتنی ہی خوبی ہے؟
اب اگر ہم اس شعر کو ذرا غور سے پڑھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس شعر میں غزل کی رسوم شعری کے حوالہ سے معانی کا اک جہان آباد ہے۔ اس سادہ سے شعر میں عاشق، معشوق کا نام سن کر اپنے دل کو "تھام تھام" لیتا ہے۔ دل تھام لینے کی وجوہ بیان نہ کر کے شاعر نے بیک وقت اپنے تمام اندیشوں اور امکانات کا اظہار کر دیا ہے۔ یعنی ہمارے سامنے کوئی اس کا نام کیوں لے؟ کیا وہ بھی اُسی کے عشق میں مبتلا ہے جس کے عشق میں میں مبتلا ہوں!کیا وہ شخص ہمارے محبوب کا ہمارے سامنے نام لے کر ہمارے رازعشق کو جاننا چاہتا ہے جو ہم نے ابھی تک چھپا رکھا ہے۔ بہرحال ہم نے اپنے راز عشق کو افشاء نہیں ہونے دیا حالانکہ ہم کو اس کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ یہاں شعر کے دوسرے مصرع میں لفظ تھام کی تکرار کا اصل جواز واضح ہوتا ہے۔ غور کیجئے کہ اگر دوسرا مصرع اس طرح ہوتا۔۔۔"دل ستم زدہ کو اپنے ہم نے تھام لیا" تو شعر آسمان سے زمین پر گر جاتا بلکہ مضحکہ خیز ہو جاتا۔
شعر میں لفظ نام بھی بڑے کام کا ہے۔ بو علی سینا کے پاس اک مریض لایا گیا جو دن بدن لاغر ہوتا جا رہا تھا ۔ بو علی سینا سمجھ گئے کہ یہ مریض عشق ہے لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں تھا۔ وہ کون ہے، کس شہر میں رہتی ہے،اس کا نام کیا ہے جب تک یہ نہ معلوم ہو اس کا علاج کیونکر ممکن تھا۔ آخر انہں اک تدبیر سوجھی۔ انہوں نے مریض کی نبض پر ہاتھ رکھا اورشہروں کے نام لینے لگے۔ آخر ایک شہر کے نام پر مریض کی نبض پھڑک اٹھی۔ لیجئے شہر کا نام معلوم ہو گیا۔ اسی طرح انھوں نے متعلقہ محلہ، مکاں اور لڑکی کے نام کا پتہ لگا لیا اب مریض کا علاج آسان تھا۔ یہاں میر صاحب کے شعری عاشق کو بو علی سینا کا سامنا نہیں تھا کہ بے قابو نبض اس کو مشکل میں ڈالتی، بس دل کو بمشکل تھام،بلکہ تھام تھام کر اس نے راز دل چھپا لیا۔
اب دل ستم زدہ پر غور کیجیے۔ عاشق ستم کا مارا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ معشوق جفا جو کسی کے ساتھ ستم سے باز نہیں آتا۔ اب ایک شخص اُسی کا نام لے رہا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اس کی طرف مائل ہو یا اس کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہو۔ میر کے عاشق نے تو ستم، جیسے تیسے، جھیل لئے لیکن ایسا کر پانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں اب اس نئے عاشق پر کیا گزرے گی؟ یہ سوچ کر ہی اس کا دل دہل جاتا ہے اور وہ اپنے دل ستم زدہ کو تھام تھام لیتا ہے۔ یہ شاعر کے احساس درد مندی کی مثال ہے
شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عاشق کو بر بنائے غیرت یہ بھی گوارہ نہں کہ کوئی اس کے معشوق سے کسی قسم کا تعلق رکھنا تو دور، اس کا نام بھی اپنی زبان پر لائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صاحب تذکرہ نے شعر میں "ہم نے" کی جگہ "اپنے" لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ یادداشت یا کتابت کی غلطی ہو۔ بہرحال "اپنے" کے ساتھ شعر اپنے مرتبہ سے گر جاتا ھے، کیونکہ اوّل تو اپنے بے محل اور زائد ٹھہرے گا ( یہ تو ممکن نہیں کہ اپنے سوا کسی دوسرے کا دل تھام لیا جائے) پھر اپنے لکھنے سے یہ بھی گمان ہو سکتا تھا کہ شائد نام لینے والا خود اپنا دل تھام رہا ہے۔ یہ شعر کا اک مضحکہ خیز پہلو ہوتا۔ لفظوں کو برتنے کا یہی فن بڑے شاعر کو معمولی شاعر سے ممتاز کرتا ہے۔
محمّد آزم
تشریح
تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا (از سعادت خاں ناصر لکھنوی) میں میر کے باب میں لکھا ہے کہ میر اپنی کم عمری کے زمانہ میں،جب تک خان آرزو کی صحبت میں رہے، کبھی کبھی دو چار شعر ان کی خدمت میں پڑھتے تھے، جنھیں وہ پسند کرتے تھے اور تاکید شعر و سخن کی زیادہ سے زیادہ کرتے تھے۔" ایک دن خان آرزو نے کہا کہ کہ آج مرزا رفیع آئے اور یہ مطلع نہایت مباہات کے ساتھ پڑھ گئے/
چمن میں صبح جو اس جنگجو کا نام لیا / صبا نے تیغ کا آب رواں سے کام لیا
میر صاحب نے اس کو سن کر بدیہ یہ مطلع پڑھا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا۔۔۔۔۔۔۔ دل ستم زدہ کو اپنے تھام تھام لیا(مطبوعہ نسخوں میں "اپنے کی جگہ "ہم نے" ہے )
خان آرزو فرط خوشی سے اچھل پڑے اور کہا خدا چشم بد سے محفوظ رکھے
آئیے اب میر کے اس شعر پر غور کریں۔ اس سیدھے سادے شعر میں آخر ایسی کیا خوبی ہے کہ خان آرزو جیسا صاحب نظر اسے سن کر فرط خوشی سے اچھل پڑا،شفقت کے اظہار یا حوصلہ افزائی کے کئے تھوڑی سی واہ واہ کافی تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیفیت کا شعر ہے جو شاعر کے دل سے نکل کر سیدھا سامع کے دل میں جاتا ہے اور یہی اس شعر کی خوبی ہے۔ لیکن یہ بات تو ہم واردات قلبی کے کسی بھی شعر کے بارے میں کہہ سکتے ہیں، جو ہم کو پسند ہو۔ تو کیا اس شعر میں بس اتنی ہی خوبی ہے؟
اب اگر ہم اس شعر کو ذرا غور سے پڑھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس شعر میں غزل کی رسوم شعری کے حوالہ سے معانی کا اک جہان آباد ہے۔ اس سادہ سے شعر میں عاشق، معشوق کا نام سن کر اپنے دل کو "تھام تھام" لیتا ہے۔ دل تھام لینے کی وجوہ بیان نہ کر کے شاعر نے بیک وقت اپنے تمام اندیشوں اور امکانات کا اظہار کر دیا ہے۔ یعنی ہمارے سامنے کوئی اس کا نام کیوں لے؟ کیا وہ بھی اُسی کے عشق میں مبتلا ہے جس کے عشق میں میں مبتلا ہوں!کیا وہ شخص ہمارے محبوب کا ہمارے سامنے نام لے کر ہمارے رازعشق کو جاننا چاہتا ہے جو ہم نے ابھی تک چھپا رکھا ہے۔ بہرحال ہم نے اپنے راز عشق کو افشاء نہیں ہونے دیا حالانکہ ہم کو اس کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ یہاں شعر کے دوسرے مصرع میں لفظ تھام کی تکرار کا اصل جواز واضح ہوتا ہے۔ غور کیجئے کہ اگر دوسرا مصرع اس طرح ہوتا۔۔۔"دل ستم زدہ کو اپنے ہم نے تھام لیا" تو شعر آسمان سے زمین پر گر جاتا بلکہ مضحکہ خیز ہو جاتا۔
شعر میں لفظ نام بھی بڑے کام کا ہے۔ بو علی سینا کے پاس اک مریض لایا گیا جو دن بدن لاغر ہوتا جا رہا تھا ۔ بو علی سینا سمجھ گئے کہ یہ مریض عشق ہے لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں تھا۔ وہ کون ہے، کس شہر میں رہتی ہے،اس کا نام کیا ہے جب تک یہ نہ معلوم ہو اس کا علاج کیونکر ممکن تھا۔ آخر انہں اک تدبیر سوجھی۔ انہوں نے مریض کی نبض پر ہاتھ رکھا اورشہروں کے نام لینے لگے۔ آخر ایک شہر کے نام پر مریض کی نبض پھڑک اٹھی۔ لیجئے شہر کا نام معلوم ہو گیا۔ اسی طرح انھوں نے متعلقہ محلہ، مکاں اور لڑکی کے نام کا پتہ لگا لیا اب مریض کا علاج آسان تھا۔ یہاں میر صاحب کے شعری عاشق کو بو علی سینا کا سامنا نہیں تھا کہ بے قابو نبض اس کو مشکل میں ڈالتی، بس دل کو بمشکل تھام،بلکہ تھام تھام کر اس نے راز دل چھپا لیا۔
اب دل ستم زدہ پر غور کیجیے۔ عاشق ستم کا مارا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ معشوق جفا جو کسی کے ساتھ ستم سے باز نہیں آتا۔ اب ایک شخص اُسی کا نام لے رہا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اس کی طرف مائل ہو یا اس کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہو۔ میر کے عاشق نے تو ستم، جیسے تیسے، جھیل لئے لیکن ایسا کر پانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں اب اس نئے عاشق پر کیا گزرے گی؟ یہ سوچ کر ہی اس کا دل دہل جاتا ہے اور وہ اپنے دل ستم زدہ کو تھام تھام لیتا ہے۔ یہ شاعر کے احساس درد مندی کی مثال ہے
شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عاشق کو بر بنائے غیرت یہ بھی گوارہ نہں کہ کوئی اس کے معشوق سے کسی قسم کا تعلق رکھنا تو دور، اس کا نام بھی اپنی زبان پر لائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صاحب تذکرہ نے شعر میں "ہم نے" کی جگہ "اپنے" لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ یادداشت یا کتابت کی غلطی ہو۔ بہرحال "اپنے" کے ساتھ شعر اپنے مرتبہ سے گر جاتا ھے، کیونکہ اوّل تو اپنے بے محل اور زائد ٹھہرے گا ( یہ تو ممکن نہیں کہ اپنے سوا کسی دوسرے کا دل تھام لیا جائے) پھر اپنے لکھنے سے یہ بھی گمان ہو سکتا تھا کہ شائد نام لینے والا خود اپنا دل تھام رہا ہے۔ یہ شعر کا اک مضحکہ خیز پہلو ہوتا۔ لفظوں کو برتنے کا یہی فن بڑے شاعر کو معمولی شاعر سے ممتاز کرتا ہے۔
محمّد آزم
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
تشریح
اسی مضمون کو انہیں پیکروں کے ساتھ دیوان اوّل میں ایک جگہ اور لکھا ہے؎
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے
لیکن ’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔‘‘ بہت بہتر شعر ہے، کیونکہ اس میں ’’سانس‘‘ کا لفظ شیشہ گری سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ (پگھلے ہوئے شیشے کو نلکی کے سرے پر رکھ کر پھونکتے ہیں اور اس طرح اسے مختلف شکلیں دیتے ہیں۔) زور کی ہوا چلے تو شیشے کی چیزیں گر کر یا آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہیں، اور آفاق کی کارگاہ شیشہ گری میں ایسے نازک کام ہوتے ہیں کہ تیز سانس بھی ان کے لئے زور کی ہوا کا حکم رکھتی ہے۔ ’’ہردم قدم کو اپنے‘‘ میں لفظ ’’دم‘‘ کے ذریعہ سانس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ’’دم قدم‘‘ میں بھی ایک لطف ہے، لیکن یہ دونوں چیزیں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے برابر بلاغت کی حامل نہیں ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ صاحب نظر کائنات کو دیکھتا ہے تو اس کی رنگا رنگی اور پیچ در پیچ نزاکت کو دیکھ کر حیرت میں آ جاتا ہے۔ ہر چیز انتظام سے چل رہی ہے، کہیں کوئی انتشار نہیں، معلوم ہوتا ہے کوئی بہت ہی نازک اور پیچیدہ کارخانہ ہے۔ صاحب نظر کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر زور کی سانس بھی لی تو یہ سب درہم برہم ہوجائے گا۔ یا شاید یہ سب کچھ ایک خواب ہے، جو ذرا سے اشارے پر برہم اور منتشر ہوسکتا ہے۔ اقبال کا مندرجہ ذیل شعر میر کے شعر زیر بحث سے براہ راست مستعار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اقبال کا شعر غیر ضروری وضاحت اور خطابیہ انداز بیان کے باعث ناکام ٹھہرتا ہے؎
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ باردوش ہے
(بانگ درا۔ حصہ سوم)
اقبال کے شعر پر قائم چاند پوری کے ایک شعر کا بھی پرتو نظر آتا ہے۔ ممکن ہے قائم نے بھی میر سے استفادہ کیا ہو، قائم؎
یہ دہر ہے کار گاہ مینا
جو پاؤں رکھے سویاں تو ڈر کر
میر کے شعرِ زیر بحث اور قائم کے مندرجہ بالا شعر پر میں نے ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ میں بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے۔ قائم نے ایک اور جگہ میرسے ملتا جلتا مضمون باندھا ہے؎
غافل قدم کو رکھیو اپنے سنبھال کر یاں
ہر سنگ رہگذر کا دکان شیشہ گر ہے
یہاں قائم کا خطابیہ لہجہ شعر کے زور میں مخل ہے اور مصرع ثانی کا انکشافی انداز بھی لفظ ’’غافل‘‘ کو سنبھالنے کے لئے ناکافی ہے۔
نثار احمد فاروقی نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ اگر اس شعر کو تصوف پر محمول کیا جائے تو اس میں ’’پاس انفاس‘‘ اور ’’ہوش دردم‘‘ کے اشارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ دورازکار معلوم ہوتا ہے کیوں کہ پاس انفاس اور ہوش دردم صوفیانہ افکار و اعمال ہیں، ان کے حوالے سے آفاق کے کاموں کا نازک ہونا نہیں ثابت ہوتا۔
شمس الرحمن فاروقی
تشریح
اسی مضمون کو انہیں پیکروں کے ساتھ دیوان اوّل میں ایک جگہ اور لکھا ہے؎
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے
لیکن ’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔‘‘ بہت بہتر شعر ہے، کیونکہ اس میں ’’سانس‘‘ کا لفظ شیشہ گری سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ (پگھلے ہوئے شیشے کو نلکی کے سرے پر رکھ کر پھونکتے ہیں اور اس طرح اسے مختلف شکلیں دیتے ہیں۔) زور کی ہوا چلے تو شیشے کی چیزیں گر کر یا آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہیں، اور آفاق کی کارگاہ شیشہ گری میں ایسے نازک کام ہوتے ہیں کہ تیز سانس بھی ان کے لئے زور کی ہوا کا حکم رکھتی ہے۔ ’’ہردم قدم کو اپنے‘‘ میں لفظ ’’دم‘‘ کے ذریعہ سانس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ’’دم قدم‘‘ میں بھی ایک لطف ہے، لیکن یہ دونوں چیزیں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے برابر بلاغت کی حامل نہیں ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ صاحب نظر کائنات کو دیکھتا ہے تو اس کی رنگا رنگی اور پیچ در پیچ نزاکت کو دیکھ کر حیرت میں آ جاتا ہے۔ ہر چیز انتظام سے چل رہی ہے، کہیں کوئی انتشار نہیں، معلوم ہوتا ہے کوئی بہت ہی نازک اور پیچیدہ کارخانہ ہے۔ صاحب نظر کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر زور کی سانس بھی لی تو یہ سب درہم برہم ہوجائے گا۔ یا شاید یہ سب کچھ ایک خواب ہے، جو ذرا سے اشارے پر برہم اور منتشر ہوسکتا ہے۔ اقبال کا مندرجہ ذیل شعر میر کے شعر زیر بحث سے براہ راست مستعار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اقبال کا شعر غیر ضروری وضاحت اور خطابیہ انداز بیان کے باعث ناکام ٹھہرتا ہے؎
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ باردوش ہے
(بانگ درا۔ حصہ سوم)
اقبال کے شعر پر قائم چاند پوری کے ایک شعر کا بھی پرتو نظر آتا ہے۔ ممکن ہے قائم نے بھی میر سے استفادہ کیا ہو، قائم؎
یہ دہر ہے کار گاہ مینا
جو پاؤں رکھے سویاں تو ڈر کر
میر کے شعرِ زیر بحث اور قائم کے مندرجہ بالا شعر پر میں نے ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ میں بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے۔ قائم نے ایک اور جگہ میرسے ملتا جلتا مضمون باندھا ہے؎
غافل قدم کو رکھیو اپنے سنبھال کر یاں
ہر سنگ رہگذر کا دکان شیشہ گر ہے
یہاں قائم کا خطابیہ لہجہ شعر کے زور میں مخل ہے اور مصرع ثانی کا انکشافی انداز بھی لفظ ’’غافل‘‘ کو سنبھالنے کے لئے ناکافی ہے۔
نثار احمد فاروقی نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ اگر اس شعر کو تصوف پر محمول کیا جائے تو اس میں ’’پاس انفاس‘‘ اور ’’ہوش دردم‘‘ کے اشارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ دورازکار معلوم ہوتا ہے کیوں کہ پاس انفاس اور ہوش دردم صوفیانہ افکار و اعمال ہیں، ان کے حوالے سے آفاق کے کاموں کا نازک ہونا نہیں ثابت ہوتا۔
شمس الرحمن فاروقی
-
موضوع : بے ثباتی
ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل
چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی
تشریح
کیا بلا کا شعر ہے۔ کیا تیور ہے۔ کیا لہجہ ہے۔
اے نقاش، اے تصویر بنانے والے، اے مورت بنانے والے، ہم نہ کہتے تھے تجھ سے کہ اس کی تصویر بنانی آسان نہیں ہے، اب دیکھ لے چاند سارا لگ گیا ہے اور ابھی صرف آدھا ہی چہرہ بنا ہے۔
زبان اور لہجے کا لطف لے لیا ہو تو آگے بڑھتے ہیں۔
فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ محبوب کو چاند کا ٹکڑا کہا جاتا ہے، لیکن یہاں یہ معاملہ ہے کہ اس کا نقش بنانے میں چاند کا ہر ٹکڑا لگ چکا ہے لیکن ابھی بھی صرف آدھی ہی صورت بن پائی ہے۔
یہ ہے میر کی میریات۔ اگر اُپما یا تشبیہ کے نظام کی بات کریں تو کسی بھی چیز کو جب کسی اور چیز سے اُپما یا تشبیہ دی جاتی ہے تو جس چیز سے اُپما دی جا رہی ہے اس کے اندر وجہ تشبیہ کی زیادتی ہونا ضروری ہے۔ مثلاً فلاں آدمی شیر سے بہادر ہے، فلاں شخص گُل سا نازک ہے۔ یہاں گُل کو ہمارے ذہن، ہمارے subconscious پہلے سے ہی زیادہ نازک مانے ہوئے ہے یا شیر کو زیادہ بہادر مانے ہوئے ہے۔ میر نے اپنے محبوب کے آگے چاند کو ایسا کمتر بنا کے پیش کیا ہے کہ ارے تم لوگ کیا چاند چاند کرتے پھرتے ہو سارا چاند لگ گیا تب بھی میرے محبوب کا آدھا چہرہ ہی بن پایا۔ اور اصل چہرہ بھی نہیں، بلکہ چہرے کی صرف تصویر۔ اصل چہرے کی تو بات ہی چھوڑ دو۔ چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی۔
ایک مصرعے نے تشبیہات کا نظام کس ہنرمندی سے الٹ کے رکھ دیا۔
اور پھر زبان، جیسے نقاش کی بے بسی پر طنز میں ہنسا جا رہا ہو ۔ مانو کہہ رہے ہوں، کیوں بھئی، ہو گئی تسلی، بڑا آیا تھا اس کا نقش بنانے والا، ہم نہ کہتے تھے کہ اس کا نقش بنانا آسان کام نہیں ہے۔
دوسرے مصرعے کی زبان دیکھئے، چاند سارا لگ گیا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ اتنی رقم لگ گئی، ساری پونجی لگ گئی، تب بھی کامیابی نہ ملی۔
پڑھتے جائیے اس شعر کو اور تہہ داری پہ عش عش کرتے رہیئے، ساتھ ہی اس مکالماتی لہجے اور روزمرہ کی زبان کے مزے لیتے رہیئے۔
اجمل صدیقی
تشریح
کیا بلا کا شعر ہے۔ کیا تیور ہے۔ کیا لہجہ ہے۔
اے نقاش، اے تصویر بنانے والے، اے مورت بنانے والے، ہم نہ کہتے تھے تجھ سے کہ اس کی تصویر بنانی آسان نہیں ہے، اب دیکھ لے چاند سارا لگ گیا ہے اور ابھی صرف آدھا ہی چہرہ بنا ہے۔
زبان اور لہجے کا لطف لے لیا ہو تو آگے بڑھتے ہیں۔
فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ محبوب کو چاند کا ٹکڑا کہا جاتا ہے، لیکن یہاں یہ معاملہ ہے کہ اس کا نقش بنانے میں چاند کا ہر ٹکڑا لگ چکا ہے لیکن ابھی بھی صرف آدھی ہی صورت بن پائی ہے۔
یہ ہے میر کی میریات۔ اگر اُپما یا تشبیہ کے نظام کی بات کریں تو کسی بھی چیز کو جب کسی اور چیز سے اُپما یا تشبیہ دی جاتی ہے تو جس چیز سے اُپما دی جا رہی ہے اس کے اندر وجہ تشبیہ کی زیادتی ہونا ضروری ہے۔ مثلاً فلاں آدمی شیر سے بہادر ہے، فلاں شخص گُل سا نازک ہے۔ یہاں گُل کو ہمارے ذہن، ہمارے subconscious پہلے سے ہی زیادہ نازک مانے ہوئے ہے یا شیر کو زیادہ بہادر مانے ہوئے ہے۔ میر نے اپنے محبوب کے آگے چاند کو ایسا کمتر بنا کے پیش کیا ہے کہ ارے تم لوگ کیا چاند چاند کرتے پھرتے ہو سارا چاند لگ گیا تب بھی میرے محبوب کا آدھا چہرہ ہی بن پایا۔ اور اصل چہرہ بھی نہیں، بلکہ چہرے کی صرف تصویر۔ اصل چہرے کی تو بات ہی چھوڑ دو۔ چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی۔
ایک مصرعے نے تشبیہات کا نظام کس ہنرمندی سے الٹ کے رکھ دیا۔
اور پھر زبان، جیسے نقاش کی بے بسی پر طنز میں ہنسا جا رہا ہو ۔ مانو کہہ رہے ہوں، کیوں بھئی، ہو گئی تسلی، بڑا آیا تھا اس کا نقش بنانے والا، ہم نہ کہتے تھے کہ اس کا نقش بنانا آسان کام نہیں ہے۔
دوسرے مصرعے کی زبان دیکھئے، چاند سارا لگ گیا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ اتنی رقم لگ گئی، ساری پونجی لگ گئی، تب بھی کامیابی نہ ملی۔
پڑھتے جائیے اس شعر کو اور تہہ داری پہ عش عش کرتے رہیئے، ساتھ ہی اس مکالماتی لہجے اور روزمرہ کی زبان کے مزے لیتے رہیئے۔
اجمل صدیقی
-
موضوع : حسن
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
تشریح
اس سے پہلے کہ خدائے سخن میر کے اس شعر کی تشریح بیان کی جائے، اس شعر میں استعمال شدہ کچھ الفاظ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا لفظ آفاق ہے جو اُفق کی جمع ہے جس کے معنی horizons کے ہیں۔ دوسرا لفظ اسباب ہے جس کے معنی سازو سامان یا ضرورت کا سامان یا ضرورت کی اشیاء یا belongings کے ہیں۔ تیسرا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے سفری ہے جس کے معنی راہی یا مسافر یا گزرنے والا ہے۔ اب سب سے پہلے جس تناظر میں آفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے۔ وہ یہ کرۂ ارض ہے، یعنی یہ دنیا ہے جہاں انسان رہتا ہے، بستا ہے، اپنی زندگی بسر کرتا ہے، اپنی زندگی کے ساز و سامان اکٹھا کرتا ہے اور زندگی کے ساز و سامان کے لیے دوڑ دھوپ، تگ و دو کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ اس دنیا سے منسلک ہو کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور ساری جدوجہد اس دنیا کے حصول کے لیے اور اسی دنیا کی محنت کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ میر نے اس عارضی زندگی اور عارضی دنیا سے انسان کے تہی داماں رخصت ہو جانے کا ایسا منظر کھینچا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ہی نظر آتی ہے ۔
انسان اس دنیا کی زندگی میں کھپتا ہے، مرتا ہے، صعوبتیں جھیلتا ہے، مشکلات اٹھاتا ہے اور اسی دنیا کی زندگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اس کی منزل کہیں اور ہے ، اس کو کہیں اور جانا ہے، وہ کسی اور دنیا کا مسافر ہے، اس جہان میں ایک عارضی سا اس کا قیام ہے۔ وہ جتنی بھی دولت کما لے، مال حاصل کر لے، اسباب اکٹھا کر لے، آخر کار سب ایک معینہ مدت کے بعد اس سے چھوٹ جانے والے ہیں اور اس کا سارا مال و متاع اسی دنیا تک رہ جانے والا ہے اس کے ساتھ نہیں جانے والا ہے اس کو تو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔
H.W.Longfellow
" A Plsalm of Life "
میں فرماتے ہیں ۔
Art is long , and Time is fleeting
And our hearts, though stout and brave ,
Still , like muffled drums are beating
Funeral marches to the graves "
یعنی انسان لمحہ لمحہ اپنی موت سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اس نے اس دنیا میں جو زندگی گزاری ہے یا جو مال کمایا ہے جو پیسہ، جو دولت اکھٹا کیا ہے وہ سب اس کی موت کے بعد بے سود ہے۔ اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یہ مال اس کے کام آنا ہے نہ ساتھ جانا ہے۔ نہ دولت اس کے ساتھ جانی ہے نہ اس کے ساتھ اس کی کمائی ہوئی کوئی دنیاوی شے اس کے ساتھ جانی ہے۔ میر نے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مسافر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو دنیا کی اس سچائی کو بیان کرتا ہے۔
سہیل آزاد
تشریح
اس سے پہلے کہ خدائے سخن میر کے اس شعر کی تشریح بیان کی جائے، اس شعر میں استعمال شدہ کچھ الفاظ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا لفظ آفاق ہے جو اُفق کی جمع ہے جس کے معنی horizons کے ہیں۔ دوسرا لفظ اسباب ہے جس کے معنی سازو سامان یا ضرورت کا سامان یا ضرورت کی اشیاء یا belongings کے ہیں۔ تیسرا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے سفری ہے جس کے معنی راہی یا مسافر یا گزرنے والا ہے۔ اب سب سے پہلے جس تناظر میں آفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے۔ وہ یہ کرۂ ارض ہے، یعنی یہ دنیا ہے جہاں انسان رہتا ہے، بستا ہے، اپنی زندگی بسر کرتا ہے، اپنی زندگی کے ساز و سامان اکٹھا کرتا ہے اور زندگی کے ساز و سامان کے لیے دوڑ دھوپ، تگ و دو کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ اس دنیا سے منسلک ہو کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور ساری جدوجہد اس دنیا کے حصول کے لیے اور اسی دنیا کی محنت کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ میر نے اس عارضی زندگی اور عارضی دنیا سے انسان کے تہی داماں رخصت ہو جانے کا ایسا منظر کھینچا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ہی نظر آتی ہے ۔
انسان اس دنیا کی زندگی میں کھپتا ہے، مرتا ہے، صعوبتیں جھیلتا ہے، مشکلات اٹھاتا ہے اور اسی دنیا کی زندگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اس کی منزل کہیں اور ہے ، اس کو کہیں اور جانا ہے، وہ کسی اور دنیا کا مسافر ہے، اس جہان میں ایک عارضی سا اس کا قیام ہے۔ وہ جتنی بھی دولت کما لے، مال حاصل کر لے، اسباب اکٹھا کر لے، آخر کار سب ایک معینہ مدت کے بعد اس سے چھوٹ جانے والے ہیں اور اس کا سارا مال و متاع اسی دنیا تک رہ جانے والا ہے اس کے ساتھ نہیں جانے والا ہے اس کو تو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔
H.W.Longfellow
" A Plsalm of Life "
میں فرماتے ہیں ۔
Art is long , and Time is fleeting
And our hearts, though stout and brave ,
Still , like muffled drums are beating
Funeral marches to the graves "
یعنی انسان لمحہ لمحہ اپنی موت سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اس نے اس دنیا میں جو زندگی گزاری ہے یا جو مال کمایا ہے جو پیسہ، جو دولت اکھٹا کیا ہے وہ سب اس کی موت کے بعد بے سود ہے۔ اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یہ مال اس کے کام آنا ہے نہ ساتھ جانا ہے۔ نہ دولت اس کے ساتھ جانی ہے نہ اس کے ساتھ اس کی کمائی ہوئی کوئی دنیاوی شے اس کے ساتھ جانی ہے۔ میر نے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مسافر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو دنیا کی اس سچائی کو بیان کرتا ہے۔
سہیل آزاد