Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nomaan Shauque's Photo'

نعمان شوق

1965 | نوئیڈا, انڈیا

ممتاز ما بعد جدید شاعر، آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ

ممتاز ما بعد جدید شاعر، آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ

نعمان شوق کے اشعار

10.1K
Favorite

باعتبار

ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی

یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم

تم تو سردی کی حسیں دھوپ کا چہرہ ہو جسے

دیکھتے رہتے ہیں دیوار سے جاتے ہوئے ہم

جمہوریت کے بیچ پھنسی اقلیت تھا دل

موقعہ جسے جدھر سے ملا وار کر دیا

کچھ نہ تھا میرے پاس کھونے کو

تم ملے ہو تو ڈر گیا ہوں میں

ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ

ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے

ذرا یہ ہاتھ میرے ہاتھ میں دو

میں اپنی دوستی سے تھک چکا ہوں

آئنے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار

ایک دن اپنی ہی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں

میری خوشیوں سے وہ رشتہ ہے تمہارا اب تک

عید ہو جائے اگر عید مبارک کہہ دو

عشق کیا ہے خوب صورت سی کوئی افواہ بس

وہ بھی میرے اور تمہارے درمیاں اڑتی ہوئی

عشق میں سچا تھا وہ میری طرح

بے وفا تو آزمانے سے ہوا

رو رو کے لوگ کہتے تھے جاتی رہے گی آنکھ

ایسا نہیں ہوا، مری بینائی بڑھ گئی

بڑے گھروں میں رہی ہے بہت زمانے تک

خوشی کا جی نہیں لگتا غریب خانے میں

کبھی لباس کبھی بال دیکھنے والے

تجھے پتہ ہی نہیں ہم سنور چکے دل سے

دور جتنا بھی چلا جائے مگر

چاند تجھ سا تو نہیں ہو سکتا

اس بار انتظام تو سردی کا ہو گیا

کیا حال پیڑ کٹتے ہی بستی کا ہو گیا

بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے

ہم جیسوں نے جان گنوائی پاگل تھے

دنیا جیسی کل تھی بالکل ویسی ہے

ہم بھی ماچس کی تیلیوں سے تھے

جو ہوا صرف ایک بار ہوا

اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں

کس کی دنیا میں آ گیا ہوں میں

وہ طنز کو بھی حسن طلب جان خوش ہوئے

الٹا پڑھا گیا، مرا پیغام اور تھا

پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا

ہمیں ڈرانے لگے وہ ہماری طاقت سے

وہ میرے لمس سے مہتاب بن چکا ہوتا

مگر ملا بھی تو جگنو پکڑنے والوں کو

فقیر لوگ رہے اپنے اپنے حال میں مست

نہیں تو شہر کا نقشہ بدل چکا ہوتا

چکھ لیا اس نے پیار تھوڑا سا

اور پھر زہر کر دیا ہے مجھے

ہمیں برا نہیں لگتا سفید کاغذ بھی

یہ تتلیاں تو تمہارے لئے بناتے ہیں

پہنتے خاک ہیں خاک اوڑھتے بچھاتے ہیں

ہماری رائے بھی لی جائے خوش لباسی پر

نام ہی لے لے تمہارا کوئی

دونوں ہاتھوں سے لٹاؤں خود کو

مجھ کو بھی پہلے پہل اچھے لگے تھے یہ گلاب

ٹہنیاں جھکتی ہوئیں اور تتلیاں اڑتی ہوئیں

ایسی ہی ایک شب میں کسی سے ملا تھا دل

بارش کے ساتھ ساتھ برستی ہے روشنی

خدا معاف کرے سارے منصفوں کے گناہ

ہم ہی نے شرط لگائی تھی ہار جانے کی

وہ سانپ جس نے مجھے آج تک ڈسا بھی نہیں

تمام زہر سخن میں مرے اسی کا ہے

اس کا ملنا کوئی مذاق ہے کیا

بس خیالوں میں جی اٹھا ہوں میں

محبت والے ہیں کتنے زمیں پر

اکیلا چاند ہی بے نور ہے کیا

ترے بغیر کوئی اور عشق ہو کیسے

کہ مشرکوں کے لئے بھی خدا ضروری ہے

کھل رہے ہیں مجھ میں دنیا کے سبھی نایاب پھول

اتنی سرکش خاک کو کس ابر نے نم کر دیا

سنا ہے شور سے حل ہوں گے سارے مسئلے اک دن

سو ہم آواز کو آواز سے ٹکراتے رہتے ہیں

جانے کس امید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ

نفرتوں کی شام یاد آئے پرانے یار لوگ

قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے

آپ تو آئے نہیں پر پھول مہنگے ہو گئے

ڈر ڈر کے جاگتے ہوئے کاٹی تمام رات

گلیوں میں تیرے نام کی اتنی صدا لگی

ہم کو ڈرا کر، آپ کو خیرات بانٹ کر

اک شخص راتوں رات جہانگیر ہو گیا

پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں

ڈوب بھی سکتی ہے میری ناؤ سوچا تک نہیں

وہ تو کہیے آپ کی خوشبو نے پہچانا مجھے

عطر کہہ کے جانے کیا کیا بیچتے عطار لوگ

ہم بہت پچھتائے آوازوں سے رشتہ جوڑ کر

شور اک لمحے کا تھا اور زندگی بھر کا سکوت

مرا کچھ راستے میں کھو گیا ہے

اچانک چلتے چلتے رک گیا ہوں

بدن نے کتنی بڑھا لی ہے سلطنت اپنی

بسے ہیں عشق و ہوس سب اسی علاقے میں

آپ کی سادہ دلی سے تنگ آ جاتا ہوں میں

میرے دل میں رہ چکے ہیں اس قدر ہشیار لوگ

اس نے ہنس کر ہاتھ چھڑایا ہے اپنا

آج جدا ہو جانے میں آسانی ہے

نام سے اس کے پکاروں خود کو

آج حیران ہی کر دوں خود کو

ایک کروٹ پہ رات کیا کٹتی

ہم نے ایجاد کی نئی دنیا

لپٹا بھی ایک بار تو کس احتیاط سے

ایسے کہ سارا جسم معطر نہ ہو سکے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے