Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aashufta Changezi's Photo'

آشفتہ چنگیزی

1956 - 1996 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز مابعد جدید شاعر، 1996میں اچانک لاپتہ ہوگئے

ممتاز مابعد جدید شاعر، 1996میں اچانک لاپتہ ہوگئے

آشفتہ چنگیزی کے اشعار

10.6K
Favorite

باعتبار

آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج

کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں

عرصے سے اس دیار کی کوئی خبر نہیں

مہلت ملے تو آج کا اخبار دیکھ لیں

سڑک پہ چلتے ہوئے آنکھیں بند رکھتا ہوں

ترے جمال کا ایسا مزہ پڑا ہے مجھے

تجھ سے بچھڑنا کوئی نیا حادثہ نہیں

ایسے ہزاروں قصے ہماری خبر میں ہیں

تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا

سوچ کے اب پچھتاتے ہیں

پہلے ہی کیا کم تماشے تھے یہاں

پھر نئے منظر اٹھا لایا ہوں میں

ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا

لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے

کیوں کھلونے ٹوٹنے پر آب دیدہ ہو گئے

اب تمہیں ہم کیا بتائیں کیا پریشانی ہوئی

یہ بات یاد رکھیں گے تلاشنے والے

جو اس سفر پہ گئے لوٹ کر نہیں آئے

خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں

کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی

گھر کی حد میں صحرا ہے

آگے دریا بہتا ہے

یہ اور بات کہ تم بھی یہاں کے شہری ہو

جو میں نے تم کو سنایا تھا میرا قصہ ہے

عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی

کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا

تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے

نہ جانے کون سی دنیا میں وہ خزانے تھے

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں

جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں

گھر کے اندر جانے کے

اور کئی دروازے ہیں

دل دیتا ہے ہر پھر کے اسی در پہ صدائیں

دیوار بنا ہے ابھی دیوانہ نہیں ہے

گھر میں اور بہت کچھ تھا

صرف در و دیوار نہ تھے

اونچی اڑان کے لیے پر تولتے تھے ہم

اونچائیوں پہ سانس گھٹے گی پتا نہ تھا

ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا

اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے

تیری خبر مل جاتی تھی

شہر میں جب اخبار نہ تھے

تجھے بھلانے کی کوشش میں پھر رہے تھے کہ ہم

کچھ اور ساتھ میں پرچھائیاں لگا لائے

سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی

سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے

کہا تھا تم سے کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں

کبھی تو قافلے والوں کی بات رکھ لیتے

سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں

جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے

جو ہر قدم پہ مرے ساتھ ساتھ رہتا تھا

ضرور کوئی نہ کوئی تو واسطا ہوگا

سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار

یہ لگ رہا ہے کہ تجھ کو بھی بھول جائیں گے

سبھی کو اپنا سمجھتا ہوں کیا ہوا ہے مجھے

بچھڑ کے تجھ سے عجب روگ لگ گیا ہے مجھے

ایک منظر میں لپٹے بدن کے سوا

سرد راتوں میں کچھ اور دکھتا نہیں

تیزی سے بیتتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ

جینے کا اک عذاب لیے بھاگتے رہے

دریاؤں کی نذر ہوئے

دھیرے دھیرے سب تیراک

تو کبھی اس شہر سے ہو کر گزر

راستوں کے جال میں الجھا ہوں میں

آشفتہؔ اب اس شخص سے کیا خاک نباہیں

جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی

ہمیں خبر تھی زباں کھولتے ہی کیا ہوگا

کہاں کہاں مگر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیتے

برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا

یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا

بدن بھیگیں گے برساتیں رہیں گی

ابھی کچھ دن یہ سوغاتیں رہیں گی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے