Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kishwar Naheed's Photo'

پاکستانی شاعرہ ، اپنے تانیثی خیالات اور مذہبی کٹرپن کی مخالفت کے لئے مشہور

پاکستانی شاعرہ ، اپنے تانیثی خیالات اور مذہبی کٹرپن کی مخالفت کے لئے مشہور

کشور ناہید کے اشعار

7.1K
Favorite

باعتبار

کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا

بچھڑا تو خیال اس کا حق تھا

دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ

مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں

اداسیوں کو تو آنگن ہی چاہئیں خالی

چھتوں پہ چاندنی راتوں کا سلسلہ رکھنا

اب صرف لباس رہ گیا ہے

وہ لے گیا کل بدن چرا کر

پانی کا بہاؤ تھم گیا ہے

نکلی ہے ندی سے وہ نہا کر

مان بھی لوں کہ تری یاد محض واہمہ ہے

پھر بھی وہ یاد ہی دم ساز رہی شام و سحر

اپنی بے چہرگی چھپانے کو

آئینے کو ادھر ادھر رکھا

بھیجی ہیں اس نے پھولوں میں منہ بند سیپیاں

انکار بھی عجب ہے بلاوا بھی ہے عجب

شامل ہوں میں تیرے رتجگوں میں

جاگوں بھی تو تیرے خواب سوچوں

اب تو بدن کے جلنے کی بو شہر بھر میں ہے

کہنا بھی ناروا ہے سو کہتا نہیں کوئی

ایک موہوم سا رشتہ ہے سو رکھنا اس کو

تم جہاں جاؤ سمجھ لینا وہیں ہم بھی تھے

شاید اداس شاخوں سے لپٹا ہوا ملے

اپنی گلی میں اس کا ٹھکانہ بھی ہے عجب

اس کو فرصت بھی نہیں مجھ کو تمنا بھی نہیں

پھر خلش کیا ہے کہ رہ رہ کے وفا ڈھونڈھتی ہے

ہاں انہی گزرے زمانوں کے صدا ساز ہیں ہم

جن کے شعلوں پہ ہوا ناچتی دیکھی ہم نے

تعلقات کے تعویذ بھی گلے میں نہیں

ملال دیکھنے آیا ہے راستہ کیسے

ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں

کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے

کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی

کس طرف کون سی منزلوں میں گئی

وہ جب بھی آیا بہت تیز بارشوں جیسا

وہ جس نے چاہا مجھے سرمئی گھٹا رکھنا

اپنا نام بھی اب تو بھول گئی ناہیدؔ

کوئی پکارے تو حیرت سے تکتی ہوں

لرز رہی ہے زمیں سہمی لڑکیوں کی طرح

پکارتی ہے کہ تنہا نہ چھوڑ کر جانا

دل کو ترے فراق کی آرزو یاد رہ گئی

دن وہ محبتوں کے بھی مثل رہ سفر گئے

مردوں کو سب روا پہ ہے عورت کو ناروا

شرم و حیا کا شہر میں چرچا بھی ہے عجب

ملال اس کو بھی تھا اور اداس ہم بھی تھے

یہ کیسی پہلی ملاقات تھی کہ غم بھی تھے

دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے

اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے

کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی

کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا

جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں

وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی

وہ جس کا شوق ہے کھلتے گلاب مل دینا

گلے ملو تو اسے بھی اداس کر جانا

مانگ میں ٹانکنے آیا تھا ستارے کوئی

دل کو کیا سوجھی کہ اس خواب کو بیمار کیا

ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھو ہم سے کچھ سیکھو

ہمیں نے پیار مانگا تھا ہمیں نے داغ پائے ہیں

یہ زندگی جسے ڈھونڈا تھا آسمانوں میں

ہوا کے ہاتھ پہ لکھی ہوئی عبارت تھی

اسے ہی بات سنانے کو دل نہیں کرتا

وہ شخص جس کے لیے زندگی سماعت تھی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے