Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Muztar Khairabadi's Photo'

مضطر خیرآبادی

1865 - 1927 | گوالیار, انڈیا

معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا

معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا

مضطر خیرآبادی کے اشعار

36.2K
Favorite

باعتبار

اسے کیوں ہم نے دیا دل جو ہے بے مہری میں کامل جسے عادت ہے جفا کی

جسے چڑھ مہر و وفا کی جسے آتا نہیں آنا غم و حسرت کا مٹانا جو ستم میں ہے یگانہ

جسے کہتا ہے زمانہ بت بے مہر و دغا باز جفا پیشہ فسوں ساز ستم خانہ بر انداز

غضب جس کا ہر اک ناز نظر فتنہ مژہ تیر بلا زلف گرہ گیر غم و رنج کا بانی قلق و درد

کا موجب ستم و جور کا استاد جفا کاری میں ماہر جو ستم کیش و ستم گر جو ستم پیشہ ہے

دلبر جسے آتی نہیں الفت جو سمجھتا نہیں چاہت جو تسلی کو نہ سمجھے جو تشفی کو نہ

جانے جو کرے قول نہ پورا کرے ہر کام ادھورا یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق

اسے چاہا جو نہ آئے نہ بلائے نہ کبھی پاس بٹھائے نہ رخ صاف دکھائے نہ کوئی

بات سنائے نہ لگی دل کی بجھائے نہ کلی دل کی کھلائے نہ غم و رنج گھٹائے نہ رہ و رسم

بڑھائے جو کہو کچھ تو خفا ہو کہے شکوے کی ضرورت جو یہی ہے تو نہ چاہو جو نہ

چاہو گے تو کیا ہے نہ نباہو گے تو کیا ہے بہت اتراؤ نہ دل دے کے یہ کس کام کا دل

ہے غم و اندوہ کا مارا ابھی چاہوں تو میں رکھ دوں اسے تلووں سے مسل کر ابھی منہ

دیکھتے رہ جاؤ کہ ہیں ان کو ہوا کیا کہ انہوں نے مرا دل لے کے مرے ہاتھ سے کھویا

وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں

اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

تشریح

یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس شعر کا بنیادی مضمون انتظار اور ہجر ہے۔ اگرچہ ایک عام انسان پر زندگی میں کئی بار اور کئی شکلوں میں مشکل وقت آن پڑتا ہے مگر اس شعر میں ایک عاشق کی نفسیات کو مدِ نظر رکھ کر شاعر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک عاشق پر ساری عمر میں دو وقت بہت کٹھن ہوتے ہیں۔ ایک وقت وہ جب عاشق اپنے محبوب کے آنے کا انتظار کرتا ہے اور دوسرا وہ وقت جب اس کا محبوب اس سے دور چلا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا ہے کہ میری زندگی میں اے میرے محبوب دو کٹھن زمانے گزرے ہیں۔ ایک وہ جب میں تمہارا انتظار کرتا ہے اور دوسرا وہ جب تم مجھے فراق کی حالت میں چھوڑ کے چلے جاتے ہو۔ ظاہر ہے کہ دونوں عالم عذاب دہ ہیں۔ انتظار کا عالم ہو یا جدائی کا دونوں میں عاشق کی جان تڑپتی ہے۔

شفق سوپوری

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا

تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت

کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے

کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں

بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے

یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا

بھول جانا بھی تم نہیں بھولے

وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں

آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں

میرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا

جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

بوسے اپنے عارض گلفام کے

لا مجھے دے دے ترے کس کام کے

لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو

ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو

وقت آرام کا نہیں ملتا

کام بھی کام کا نہیں ملتا

مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں

گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں

اک ہم ہیں کہ ہم نے تمہیں معشوق بنایا

اک تم ہو کہ تم نے ہمیں رکھا نہ کہیں کا

حال اس نے ہمارا پوچھا ہے

پوچھنا اب ہمارے حال کا کیا

جیے جاتے ہیں پستی میں ترے سارے جہاں والے

کبھی نیچے بھی نظریں ڈال اونچے آسماں والے

اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے

خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے

میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا

میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

ہمارے ایک دل کو ان کی دو زلفوں نے گھیرا ہے

یہ کہتی ہے کہ میرا ہے وہ کہتی ہے کہ میرا ہے

عمر سب ذوق تماشا میں گزاری لیکن

آج تک یہ نہ کھلا کس کے طلب گار ہیں ہم

ان کا اک پتلا سا خنجر ان کا اک نازک سا ہاتھ

وہ تو یہ کہیے مری گردن خوشی میں کٹ گئی

ان کو آتی تھی نیند اور مجھ کو

اپنا قصہ تمام کرنا تھا

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال

کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے

آنکھیں نہ چراؤ دل میں رہ کر

چوری نہ کرو خدا کے گھر میں

آئنہ دیکھ کر غرور فضول

بات وہ کر جو دوسرا نہ کرے

تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول

میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے

اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو

کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو

وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند

نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے

جان دینا نہیں کسے منظور

تو کسی کام سے تو آئے گا

صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں

دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا

ایک ہم ہیں کہ جہاں جائیں برے کہلائیں

ایک وہ ہیں کہ جہاں جائیں وہیں اچھے ہیں

جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے

تو بولے آپ جس دن حشر میں مدفن سے نکلیں گے

بازو پہ رکھ کے سر جو وہ کل رات سو گیا

آرام یہ ملا کہ مرا ہات سو گیا

کیا اثر خاک تھا مجنوں کے پھٹے کپڑوں میں

ایک ٹکڑا بھی تو لیلیٰ کا گریباں نہ ہوا

محبت میں کسی نے سر پٹکنے کا سبب پوچھا

تو کہہ دوں گا کہ اپنی مشکلیں آسان کرتا ہوں

اے عشق کہیں لے چل یہ دیر و حرم چھوٹیں

ان دونوں مکانوں میں جھگڑا نظر آتا ہے

اٹھے اٹھ کر چلے چل کر تھمے تھم کر کہا ہوگا

میں کیوں جاؤں بہت ہیں ان کی حالت دیکھنے والے

ایسی قسمت کہاں کہ جام آتا

بوئے مے بھی ادھر نہیں آئی

عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے

تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا

ہم سے اچھا نہیں ملنے کا اگر تم چاہو

تم سے اچھے ابھی ملتے ہیں اگر ہم چاہیں

میرے اشکوں کی روانی کو روانی تو کہو

خیر تم خون نہ سمجھو اسے پانی تو کہو

تیری رحمت کا نام سن سن کر

مبتلا ہو گیا گناہوں میں

دم خواب راحت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا

مرا حال لکھنے کے قابل نہیں ہے اگر مل گئے تو زبانی کہوں گا

بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا

اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو

حال دل اغیار سے کہنا پڑا

گل کا قصہ خار سے کہنا پڑا

زاہد تو بخشے جائیں گنہ گار منہ تکیں

اے رحمت خدا تجھے ایسا نہ چاہئے

باقی کی محبت میں دل صاف ہوا اتنا

جب سر کو جھکاتا ہوں شیشہ نظر آتا ہے

Recitation

بولیے