Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akhtar Ansari Akbarabadi's Photo'

اختر انصاری اکبرآبادی

1920 - 1958

شاعر اور ادبی صحافی، ’نشیمن‘ ’مشرق‘ اور ’نئی قدریں‘ جیسے ادبی رسالوں کی ادارت کی، نظم و نثر میں متعدد کتابیں شائع ہوئیں

شاعر اور ادبی صحافی، ’نشیمن‘ ’مشرق‘ اور ’نئی قدریں‘ جیسے ادبی رسالوں کی ادارت کی، نظم و نثر میں متعدد کتابیں شائع ہوئیں

اختر انصاری اکبرآبادی کے اشعار

1.8K
Favorite

باعتبار

چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے

لو خموشی بھی شکایت ہو گئی

کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا

تھی جو دیوار کبھی اب ہے وہ در کی صورت

کچھ اندھیرے ہیں ابھی راہ میں حائل اخترؔ

اپنی منزل پہ نظر آئے گا انساں اک روز

ظلم سہتے رہے شکر کرتے رہے آئی لب تک نہ یہ داستاں آج تک

مجھ کو حیرت رہی انجمن میں تری کیوں ہیں خاموش اہل زباں آج تک

دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست

دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ

عجیب بھول بھلیاں ہے شاہراہ حیات

بھٹکنے والے یہاں جستجو کی بات نہ کر

سہارا دے نہیں سکتے شکستہ پاؤں کو

ہٹاؤ راہ محبت سے رہنماؤں کو

ہو کوئی موج طوفاں یا ہوائے تند کا جھونکا

جو پہنچا دے لب ساحل اسی کو ناخدا سمجھو

اک حسن مکمل ہے تو اک عشق سراپا

ہشیار سا اک شخص ہے دیوانہ سا اک شخص

کیوں شکن پڑ گئی ہے ابرو پر

میں تو کہتا ہوں ایک بات کی بات

غم دل کا اثر ہر بزم میں ہے

سب افسانے اس افسانے سے نکلے

بندگی تیری خدائی سے بہت ہے آگے

نقش سجدہ ہے ترے نقش قدم سے پہلے

گلوں کا ذکر بہاروں میں کر چکے اخترؔ

اب آؤ ہوش میں برق و شرر کی بات کرو

یہ رنگ و کیف کہاں تھا شباب سے پہلے

نظر کچھ اور تھی موج شراب سے پہلے

ابھی بہار نے سیکھی کہاں ہے دل جوئی

ہزار داغ ابھی قلب لالہ زار میں ہیں

فتنوں کی ارزانی سے اب ایک اک تار آلودہ ہے

ہم دیکھیں کس کس کے دامن ایک بھی دامن پاک نہیں

کیوں کرو اخترؔ کی باتیں وہ تو اک دیوانہ ہے

تم تو یارو اپنی اپنی داستاں کہتے رہو

ہم جو لٹے اس شہر میں جا کر دکھ لوگوں کو کیوں پہنچا

اپنی نظر تھی اپنا دل تھا کوئی پرایا مال نہ تھا

راہ پر آ ہی گئے آج بھٹکنے والے

راہبر دیکھ وہ منزل کا نشاں ہے کہ نہیں

بچا بچا کے گزرنا ہے دامن ہستی

شریک خار بھی کچھ جشن نو بہار میں ہیں

یہی ہیں یادگار غنچہ و گل اس زمانے میں

انہیں سوکھے ہوئے کانٹوں سے ذکر گلستاں لکھیے

گل کھلائے نہ کہیں فتنۂ دوراں کچھ اور

آج کل دور مے و جام سے جی ڈرتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے