مصطفی شہاب کے اشعار
ذہن میں یاد کے گھر ٹوٹنے لگتے ہیں شہابؔ
لوگ ہو جاتے ہیں جی جی کے پرانے کتنے
ایسا بھی کبھی ہو میں جسے خواب میں دیکھوں
جاگوں تو وہی خواب کی تعبیر بتائے
گو ترک تعلق میں بھی شامل ہیں کئی دکھ
بے کیف تعلق کے بھی آزار بہت ہیں
کہا تھا میں نے کھو کر بھی تجھے زندہ رہوں گا
وہ ایسا جھوٹ تھا جس کو نبھانا پڑ گیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں سچ سے گریزاں ہوں اور جھوٹ پہ نادم ہوں
وہ سچ پہ پشیماں ہے اور جھوٹ پر آمادہ
شاید وہ بھولی بسری نہ ہو آرزو کوئی
کچھ اور بھی کمی سی ہے تیری کمی کے ساتھ
میں اور میرا شوق سفر ساتھ ہیں مگر
یہ اور بات ہے کہ سفر ہو گئے تمام
بچھڑا وہ مجھ سے ایسے نہ بچھڑے کبھی کوئی
اب یوں ملا ہے جیسے وہ پہلے ملا نہ ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوتے ہوتے میں پہنچ جاتا ہوں اپنے آپ تک
اس سے آگے اور کوئی راستہ جاتا نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بکھرا بکھرا سا ساز و ساماں ہے
ہم کہیں دل کہیں عقیدہ کہیں
اس طرح سجا رکھے ہیں میں نے در و دیوار
گھر میں تری صورت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
دل سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے
جیسے اٹھ کر ابھی گیا ہے کوئی
در کنج صدا بند کا کھولیں گے کسی روز
ہم لوگ جو خاموش ہیں بولیں گے کسی روز
اپنی کشتی سر پہ رکھ کر چل رہے ہیں ہم شہابؔ
یہ بھی ممکن ہے کہ اگلے موڑ پر دریا ملے
میں بھی شاید آپ کو تنہا ملوں
اپنی تنہائی میں جا کر دیکھیے
صبح تک جانے کہاں مجھ کو اڑا کر لے جائے
ایک آندھی جو سر شام چلی ہے مجھ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ آب دیدہ ٹھہر جائے جھیل کی صورت
کہ ایک چاند کا ٹکڑا نہانا چاہتا ہے
-
موضوع : آب دیدہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کار زندگانی کے شور و شر میں مدت سے
اس کو بھول جانے کا احتمال رہتا ہے
حقیقت کو تماشے سے جدا کرنے کی خاطر
اٹھا کر بارہا پردہ گرانا پڑ گیا ہے
ہم میں اور پرندوں میں فرق صرف اتنا ہے
دست و پا ملے ہم کو بال و پر پرندوں کو
خوف اک بلندی سے پستیوں میں رلنے کا
آب جو میں رہتا ہے اور نظر نہیں آتا