Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصطفی شہاب کے اشعار

3.3K
Favorite

باعتبار

ذہن میں یاد کے گھر ٹوٹنے لگتے ہیں شہابؔ

لوگ ہو جاتے ہیں جی جی کے پرانے کتنے

ایسا بھی کبھی ہو میں جسے خواب میں دیکھوں

جاگوں تو وہی خواب کی تعبیر بتائے

گو ترک تعلق میں بھی شامل ہیں کئی دکھ

بے کیف تعلق کے بھی آزار بہت ہیں

میں سچ سے گریزاں ہوں اور جھوٹ پہ نادم ہوں

وہ سچ پہ پشیماں ہے اور جھوٹ پر آمادہ

کہا تھا میں نے کھو کر بھی تجھے زندہ رہوں گا

وہ ایسا جھوٹ تھا جس کو نبھانا پڑ گیا ہے

بکھرا بکھرا سا ساز و ساماں ہے

ہم کہیں دل کہیں عقیدہ کہیں

شاید وہ بھولی بسری نہ ہو آرزو کوئی

کچھ اور بھی کمی سی ہے تیری کمی کے ساتھ

میں اور میرا شوق سفر ساتھ ہیں مگر

یہ اور بات ہے کہ سفر ہو گئے تمام

دل سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے

جیسے اٹھ کر ابھی گیا ہے کوئی

بچھڑا وہ مجھ سے ایسے نہ بچھڑے کبھی کوئی

اب یوں ملا ہے جیسے وہ پہلے ملا نہ ہو

اس طرح سجا رکھے ہیں میں نے در و دیوار

گھر میں تری صورت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

ہوتے ہوتے میں پہنچ جاتا ہوں اپنے آپ تک

اس سے آگے اور کوئی راستہ جاتا نہیں

اپنی کشتی سر پہ رکھ کر چل رہے ہیں ہم شہابؔ

یہ بھی ممکن ہے کہ اگلے موڑ پر دریا ملے

در کنج صدا بند کا کھولیں گے کسی روز

ہم لوگ جو خاموش ہیں بولیں گے کسی روز

یہ آب دیدہ ٹھہر جائے جھیل کی صورت

کہ ایک چاند کا ٹکڑا نہانا چاہتا ہے

میں بھی شاید آپ کو تنہا ملوں

اپنی تنہائی میں جا کر دیکھیے

ہم میں اور پرندوں میں فرق صرف اتنا ہے

دست و پا ملے ہم کو بال و پر پرندوں کو

استعارے زمین سے جائیں

اک غزل آسمان سے اترے

کار زندگانی کے شور و شر میں مدت سے

اس کو بھول جانے کا احتمال رہتا ہے

صبح تک جانے کہاں مجھ کو اڑا کر لے جائے

ایک آندھی جو سر شام چلی ہے مجھ میں

حقیقت کو تماشے سے جدا کرنے کی خاطر

اٹھا کر بارہا پردہ گرانا پڑ گیا ہے

خوف اک بلندی سے پستیوں میں رلنے کا

آب جو میں رہتا ہے اور نظر نہیں آتا

Recitation

بولیے