Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

نسیم دہلوی

1799/ 1800 - 1866 | دلی, انڈیا

نسیم دہلوی کے اشعار

330
Favorite

باعتبار

نام میرا سنتے ہی شرما گئے

تم نے تو خود آپ کو رسوا کیا

آنکھوں میں ہے لحاظ تبسم فزا ہیں لب

شکر خدا کے آج تو کچھ راہ پر ہیں آپ

کفر و دیں کے قاعدے دونوں ادا ہو جائیں گے

ذبح وہ کافر کرے منہ سے کہیں تکبیر ہم

سیلاب چشم تر سے زمانہ خراب ہے

شکوے کہاں کہاں ہیں مرے آب دیدہ کے

ربط باہم کے مزے باہم رہیں تو خوب ہیں

یاد رکھنا جان جاں گر میں نہیں تو تو نہیں

کعبہ نہیں ہے زاہد غافل نشان دوست

دل ڈھونڈ عاشقوں کا یہی ہے مکان دوست

کیا اس حرام خور کو جز مردہ ہے نصیب

آیا نہ منہ میں گور کے لقمہ حلال کا

ترا جمال بنا میں کبھی، کبھی احساں

غرض یہ تھی کہ مجھے برگزیدہ ہونا تھا

مطلب ہے مرا عارض پر نور کا جلوہ

عاشق ہوں ترا نام کو بندہ ہوں خدا کا

نسیمؔ دہلوی ہم موجد باب فصاحت ہیں

کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں

اے ساکنان چرخ معلی بچو بچو

طوفاں ہوا بلند مرے آب دیدہ کا

کبھی آغوش میں رہتا کبھی رخساروں پر

کاش اے آفت جاں میں ترا آنسو ہوتا

مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں

کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض

گنگ ہیں جن کو خموشی کا مزا ہوتا ہے

دہن زخم میں خود قفل حیا ہوتا ہے

کار دیں یا فکر دنیا کیجیے

زندگی تھوڑی ہے کیا کیا کیجیے

حرفوں کے ملے جوڑ بڑھا حسن رقم کا

ہر لفظ کے پیوند میں بخیہ ہے قلم کا

کثرت‌ دولت میں لطف خانہ بربادی بھی ہے

شہد کے ہونے سے لٹ جاتا ہے گھر زنبور کا

مطلب کی بات کہہ نہ سکے ان سے رات بھر

معنی بھی منہ چھپائے ہوئے گفتگو میں تھا

نکلتے ہیں برابر اشک میری دونوں آنکھوں سے

متاع درد تلنے کی ترازو ہو تو ایسی ہو

تصدق ہونے والے پس نہ جائیں

اٹھائے ہاتھ سے دامن کو چلئے

روز ہو جاتی ہیں ہم سے ایک دو اٹھکھیلیاں

نوجوانی آج تک باقی ہے چرخ پیر کی

بھولتی ہیں کب نگاہیں چشم جادو خیز کی

ہم کو سامان فراموشی سب اپنا یاد ہے

اللہ رے تردد خاطر کی کثرتیں

تودہ بنا دیا مجھے گرد ملال کا

اے چرخ پیر زور جوانی سے در گزر

اب پاس چاہیے تجھے پشت خمیدہ کا

حب دنیا الفت زر دل سے دم بھر کم نہیں

اس پر اے زاہد ارادہ ہے خدا کی یاد کا

ابرو میں خم جبین میں چیں زلف میں شکن

آیا جو میرا نام تو کس کس میں بل پڑے

حسن برہنگی کے اٹھاتے بڑے مزے

ہوتا نہ روح کو جو لباس بدن حجاب

میزان عدالت ہیں مرے دیدۂ پر آب

ہم وزن ہر آنسو کا ہر آنسو نظر آیا

شوق شراب خواہش جام و سبو نہیں

ہے سب حرام جب سے کہ پہلو میں تو نہیں

آواز کی طرح سے بیٹھیں گے آج اے جاں

دیکھیں تو آپ کیوں کر ہم کو اٹھا ہی دیں گے

مزہ مطلع کا دے فکر دو پہلو ہو تو ایسی ہو

رہیں حصے برابر بیت ابرو ہو تو ایسی ہو

تمہارے حسن نے ہر داؤں میں اسے جیتا

ہزار طرح سے گھٹ بڑھ کے بازی ہارا چاند

خواہش وصل سے خط پڑھنے کے قابل نہ رہا

لپٹے الفاظ سے الفاظ مکرر ہو کر

سیکڑوں من سے بھی زنجیر مری بھاری ہے

واہ کیا شوکت سامان گنہ گاری ہے

کچھ عجب تاثیر تھی اس بت کے نظارے میں بھی

جو مسلماں اس طرف گزرا برہمن ہو گیا

جب فصل گل آتی ہے صدا دیتی ہے وحشت

زنجیر کا غل نعرۂ مستانہ ہے اس کا

پڑ گئی چھینٹ تو اتنا نہ خفا ہو واعظ

مے رہے گی تری آغوش میں دختر ہو کر

ایک سے دو داغ دو سے چار پھر تو سیکڑوں

کھلتے کھلتے پھول سینے پر گلستاں ہو گیا

رات دن بازوئے مژگاں پہ بندھا رہتا ہے

ہے مرا اشک مرے دیدۂ تر کا تعویذ

نہ یوں نیچی کیے گردن کو چلئے

ذرا اونچی کیے چتون کو چلئے

اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی

حال سے لوگوں کو خبر ہو گئی

وہ جس رستے سے نکلے دیکھ لینا

کہ اس رستے میں پھر رستا نہ ہوگا

ادب بادہ پرستی نہ گیا مستی میں

صورت کعبہ طواف در مے خانہ ہے

ٹھنڈی کبھی نہ ہوں گی کیا گرمیاں تمہاری

آخر نسیمؔ کا دل کب تک جلائیے گا

میں ہوں اک اور ہی لیلیٰ کا مائل

تسلی کیا مری محمل سے ہوگی

ساکن مسجد کبھی گہ معتکف ہے دیر کا

ملت و دین نسیمؔ دہلوی رندانہ ہے

آنسو پونچھیں گے کب تک احباب

ٹپکا نہ رکے گا چشم تر کا

پیار سے دشمن کے وہ عالم ترا جاتا رہا

ایسے لب چوسے کہ بوسوں کا مزا جاتا رہا

ایسے مسافران عدم تنگ دل گئے

منہ بھی کیا نہ عالم ایجاد کی طرف

خوب ہی پھر تو سمجھتا میں دل دشمن سے

ایک ساعت مرے پہلو میں اگر تو ہوتا

Recitation

بولیے