Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mohsin Naqvi's Photo'

محسن نقوی

1947 - 1996 | ملتان, پاکستان

مقبول پاکستانی شاعر، کم عمری میں وفات

مقبول پاکستانی شاعر، کم عمری میں وفات

محسن نقوی کے اشعار

34.4K
Favorite

باعتبار

چنتی ہیں میرے اشک رتوں کی بھکارنیں

محسنؔ لٹا رہا ہوں سر عام چاندنی

تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا

ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے

کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے

رات گئے تک کیوں جاگے ہو

صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو

کچھ سوالی بڑے خوددار ہوا کرتے ہیں

تمہیں جب روبرو دیکھا کریں گے

یہ سوچا ہے بہت سوچا کریں گے

جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک

وہ پتھروں کو متاع حواس کیا دے گا

جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر

وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا

وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی

ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی

وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے

گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے

موسم زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے

ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا

مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا

  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی

کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں

لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں

ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا

سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا

اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا

کون سی بات ہے تم میں ایسی

اتنے اچھے کیوں لگتے ہو

اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا

بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے

چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

گہری خموش جھیل کے پانی کو یوں نہ چھیڑ

چھینٹے اڑے تو تیری قبا پر بھی آئیں گے

کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانیٔ دل

زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں

وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا

کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے

کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے

شام ڈھل جائے تو محسنؔ تم بھی گھر جایا کرو

شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے

جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر

وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا

ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو

ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا

اس شان سے لوٹے ہیں گنوا کر دل و جاں ہم

اس طور تو ہارے ہوئے لشکر نہیں آتے

جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے

ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ

وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں

زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں

میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں

ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں

ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا

یہ شاعری یہ کتابیں یہ آیتیں دل کی

نشانیاں یہ سبھی تجھ پہ وارنا ہوں گی

ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ

چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا

پلٹ کے آ گئی خیمے کی سمت پیاس مری

پھٹے ہوئے تھے سبھی بادلوں کے مشکیزے

کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو

شہر والے مرا موضوع سخن جانتے ہیں

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے