Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Muztar Khairabadi's Photo'

مضطر خیرآبادی

1865 - 1927 | گوالیار, انڈیا

معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا

معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا

مضطر خیرآبادی کے اشعار

34.3K
Favorite

باعتبار

اے خدا دنیا پہ اب قبضہ بتوں کا چاہیے

ایک گھر تیرے لیے ان سب نے خالی کر دیا

یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی

وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری

میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا

میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

پردے والے بھی کہیں آتے ہیں گھر سے باہر

اب جو آ بیٹھے ہو تم دل میں تو بیٹھے رہنا

خال و عارض کا تصور ہے ہمارے دل میں

ایک ہندو بھی ہے کعبے میں مسلمان کے ساتھ

حال دل اغیار سے کہنا پڑا

گل کا قصہ خار سے کہنا پڑا

میں مسیحا اسے سمجھتا ہوں

جو مرے درد کی دوا نہ کرے

اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم

کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم

دل کو میں اپنے پاس کیوں رکھوں

تو ہی لے جا اگر یہ تیرا ہے

لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو

ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو

ساقی مرا کھنچا تھا تو میں نے منا لیا

یہ کس طرح منے جو دھری ہے کھنچی ہوئی

کوئی لے لے تو دل دینے کو میں تیار بیٹھا ہوں

کوئی مانگے تو اپنی جان تک قربان کرتا ہوں

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

جو پوچھا دل ہمارا کیوں لیا تو ناز سے بولے

کہ تھوڑی بے قراری اس دل مضطرؔ سے لینا ہے

کعبے میں ہم نے جا کے کچھ اور حال دیکھا

جب بت کدہ میں پہنچے صورت ہی دوسری تھی

ایمان ساتھ جائے گا کیوں کر خدا کے گھر

کعبے کا راستہ تو کلیسا سے مل گیا

پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ

کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا

اس کا بھی ایک وقت ہے آنے دو موت کو

مضطرؔ خدا کی یاد ابھی کیوں کرے کوئی

بوسے اپنے عارض گلفام کے

لا مجھے دے دے ترے کس کام کے

ان کا اک پتلا سا خنجر ان کا اک نازک سا ہاتھ

وہ تو یہ کہیے مری گردن خوشی میں کٹ گئی

نمک پاش زخم جگر اب تو آ جا

مرا دل بہت بے مزہ ہو رہا ہے

اسے کیوں ہم نے دیا دل جو ہے بے مہری میں کامل جسے عادت ہے جفا کی

جسے چڑھ مہر و وفا کی جسے آتا نہیں آنا غم و حسرت کا مٹانا جو ستم میں ہے یگانہ

جسے کہتا ہے زمانہ بت بے مہر و دغا باز جفا پیشہ فسوں ساز ستم خانہ بر انداز

غضب جس کا ہر اک ناز نظر فتنہ مژہ تیر بلا زلف گرہ گیر غم و رنج کا بانی قلق و درد

کا موجب ستم و جور کا استاد جفا کاری میں ماہر جو ستم کیش و ستم گر جو ستم پیشہ ہے

دلبر جسے آتی نہیں الفت جو سمجھتا نہیں چاہت جو تسلی کو نہ سمجھے جو تشفی کو نہ

جانے جو کرے قول نہ پورا کرے ہر کام ادھورا یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق

اسے چاہا جو نہ آئے نہ بلائے نہ کبھی پاس بٹھائے نہ رخ صاف دکھائے نہ کوئی

بات سنائے نہ لگی دل کی بجھائے نہ کلی دل کی کھلائے نہ غم و رنج گھٹائے نہ رہ و رسم

بڑھائے جو کہو کچھ تو خفا ہو کہے شکوے کی ضرورت جو یہی ہے تو نہ چاہو جو نہ

چاہو گے تو کیا ہے نہ نباہو گے تو کیا ہے بہت اتراؤ نہ دل دے کے یہ کس کام کا دل

ہے غم و اندوہ کا مارا ابھی چاہوں تو میں رکھ دوں اسے تلووں سے مسل کر ابھی منہ

دیکھتے رہ جاؤ کہ ہیں ان کو ہوا کیا کہ انہوں نے مرا دل لے کے مرے ہاتھ سے کھویا

احباب و اقارب کے برتاؤ کوئی دیکھے

اول تو مجھے گاڑھا اوپر سے دباتے ہیں

فنا کے بعد اس دنیا میں کچھ باقی نہیں رہتا

فقط اک نام اچھا یا برا مشہور رہتا ہے

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

گئے ہم دیر سے کعبے مگر یہ کہہ کے پھر آئے

کہ تیری شکل کچھ اچھی وہیں معلوم ہوتی ہے

ہستئ غیر کا سجدہ ہے محبت میں گناہ

آپ ہی اپنی پرستش کے سزا وار ہیں ہم

تم کیوں شب جدائی پردے میں چھپ گئے ہو

قسمت کے اور تارے سب آسمان پر ہیں

جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے

تو بولے آپ جس دن حشر میں مدفن سے نکلیں گے

تیرے موئے مژہ کھٹکتے ہیں

دل کے چھالوں میں نوک خار کہاں

میں تری راہ طلب میں بہ تمنائے وصال

محو ایسا ہوں کہ مٹنے کا بھی کچھ دھیان نہیں

صورت تو ایک ہی تھی دو گھر ہوئے تو کیا ہے

دیر و حرم کی بابت جھگڑے فضول ڈالے

ساقی نے لگی دل کی اس طرح بجھا دی تھی

اک بوند چھڑک دی تھی اک بوند چکھا دی تھی

تصور میں ترا در اپنے سر تک کھینچ لیتا ہوں

ستم گر میں نہیں چلتا تری دیوار چلتی ہے

بت خانے میں کیا یاد الٰہی نہیں ممکن

ناقوس سے کیا کار اذاں ہو نہیں سکتا

کسی کے کم ہیں کسی کے بہت مگر زاہد

گناہ کرنے کو کیا پارسا نہیں کرتے

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے

اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی

اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا

جناب خضر راہ عشق میں لڑنے سے کیا حاصل

میں اپنا راستہ لے لوں تم اپنا راستہ لے لو

انھوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے

ہزار کچھ ہو مگر اک وفا نہیں کرتے

خوب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے

خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا

سنو گے حال جو میرا تو داد کیا دو گے

یہی کہو گے کہ جھوٹا ہے تو زمانے کا

قبر پر کیا ہوا جو میلا ہے

مرنے والا نرا اکیلا ہے

وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی

وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے

عیسیٰ کبھی نہ جاتے لیکن تمہارے غم میں

وہ بھی تو مر رہے ہیں جو آسمان پر ہیں

چوکی نظر جو زاہد خانہ خراب کی

توبہ اڑا کے لے گئی بوتل شراب کی

آہ رسا خدا کے لیے دیکھ بھال کے

ان کا بھی گھر ملا ہوا دشمن کے گھر سے ہے

کسی نے نہ دیکھا ترے حسن کو

مری صورت حال دیکھی گئی

جلے گا دل تمہیں بزم عدو میں دیکھ کر میرا

دھواں بن بن کے ارماں محفل دشمن سے نکلیں گے

بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا

اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے