مضطر خیرآبادی کے اشعار
اے خدا دنیا پہ اب قبضہ بتوں کا چاہیے
ایک گھر تیرے لیے ان سب نے خالی کر دیا
یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی
وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پردے والے بھی کہیں آتے ہیں گھر سے باہر
اب جو آ بیٹھے ہو تم دل میں تو بیٹھے رہنا
خال و عارض کا تصور ہے ہمارے دل میں
ایک ہندو بھی ہے کعبے میں مسلمان کے ساتھ
میں مسیحا اسے سمجھتا ہوں
جو مرے درد کی دوا نہ کرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم
کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم
دل کو میں اپنے پاس کیوں رکھوں
تو ہی لے جا اگر یہ تیرا ہے
لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو
ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو
ساقی مرا کھنچا تھا تو میں نے منا لیا
یہ کس طرح منے جو دھری ہے کھنچی ہوئی
کوئی لے لے تو دل دینے کو میں تیار بیٹھا ہوں
کوئی مانگے تو اپنی جان تک قربان کرتا ہوں
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جو پوچھا دل ہمارا کیوں لیا تو ناز سے بولے
کہ تھوڑی بے قراری اس دل مضطرؔ سے لینا ہے
کعبے میں ہم نے جا کے کچھ اور حال دیکھا
جب بت کدہ میں پہنچے صورت ہی دوسری تھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایمان ساتھ جائے گا کیوں کر خدا کے گھر
کعبے کا راستہ تو کلیسا سے مل گیا
پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کا بھی ایک وقت ہے آنے دو موت کو
مضطرؔ خدا کی یاد ابھی کیوں کرے کوئی
بوسے اپنے عارض گلفام کے
لا مجھے دے دے ترے کس کام کے
ان کا اک پتلا سا خنجر ان کا اک نازک سا ہاتھ
وہ تو یہ کہیے مری گردن خوشی میں کٹ گئی
نمک پاش زخم جگر اب تو آ جا
مرا دل بہت بے مزہ ہو رہا ہے
اسے کیوں ہم نے دیا دل جو ہے بے مہری میں کامل جسے عادت ہے جفا کی
جسے چڑھ مہر و وفا کی جسے آتا نہیں آنا غم و حسرت کا مٹانا جو ستم میں ہے یگانہ
جسے کہتا ہے زمانہ بت بے مہر و دغا باز جفا پیشہ فسوں ساز ستم خانہ بر انداز
غضب جس کا ہر اک ناز نظر فتنہ مژہ تیر بلا زلف گرہ گیر غم و رنج کا بانی قلق و درد
کا موجب ستم و جور کا استاد جفا کاری میں ماہر جو ستم کیش و ستم گر جو ستم پیشہ ہے
دلبر جسے آتی نہیں الفت جو سمجھتا نہیں چاہت جو تسلی کو نہ سمجھے جو تشفی کو نہ
جانے جو کرے قول نہ پورا کرے ہر کام ادھورا یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق
اسے چاہا جو نہ آئے نہ بلائے نہ کبھی پاس بٹھائے نہ رخ صاف دکھائے نہ کوئی
بات سنائے نہ لگی دل کی بجھائے نہ کلی دل کی کھلائے نہ غم و رنج گھٹائے نہ رہ و رسم
بڑھائے جو کہو کچھ تو خفا ہو کہے شکوے کی ضرورت جو یہی ہے تو نہ چاہو جو نہ
چاہو گے تو کیا ہے نہ نباہو گے تو کیا ہے بہت اتراؤ نہ دل دے کے یہ کس کام کا دل
ہے غم و اندوہ کا مارا ابھی چاہوں تو میں رکھ دوں اسے تلووں سے مسل کر ابھی منہ
دیکھتے رہ جاؤ کہ ہیں ان کو ہوا کیا کہ انہوں نے مرا دل لے کے مرے ہاتھ سے کھویا
احباب و اقارب کے برتاؤ کوئی دیکھے
اول تو مجھے گاڑھا اوپر سے دباتے ہیں
فنا کے بعد اس دنیا میں کچھ باقی نہیں رہتا
فقط اک نام اچھا یا برا مشہور رہتا ہے
مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا
گئے ہم دیر سے کعبے مگر یہ کہہ کے پھر آئے
کہ تیری شکل کچھ اچھی وہیں معلوم ہوتی ہے
ہستئ غیر کا سجدہ ہے محبت میں گناہ
آپ ہی اپنی پرستش کے سزا وار ہیں ہم
تم کیوں شب جدائی پردے میں چھپ گئے ہو
قسمت کے اور تارے سب آسمان پر ہیں
جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے
تو بولے آپ جس دن حشر میں مدفن سے نکلیں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تیرے موئے مژہ کھٹکتے ہیں
دل کے چھالوں میں نوک خار کہاں
میں تری راہ طلب میں بہ تمنائے وصال
محو ایسا ہوں کہ مٹنے کا بھی کچھ دھیان نہیں
صورت تو ایک ہی تھی دو گھر ہوئے تو کیا ہے
دیر و حرم کی بابت جھگڑے فضول ڈالے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ساقی نے لگی دل کی اس طرح بجھا دی تھی
اک بوند چھڑک دی تھی اک بوند چکھا دی تھی
تصور میں ترا در اپنے سر تک کھینچ لیتا ہوں
ستم گر میں نہیں چلتا تری دیوار چلتی ہے
بت خانے میں کیا یاد الٰہی نہیں ممکن
ناقوس سے کیا کار اذاں ہو نہیں سکتا
کسی کے کم ہیں کسی کے بہت مگر زاہد
گناہ کرنے کو کیا پارسا نہیں کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے
اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جناب خضر راہ عشق میں لڑنے سے کیا حاصل
میں اپنا راستہ لے لوں تم اپنا راستہ لے لو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
انھوں نے کیا نہ کیا اور کیا نہیں کرتے
ہزار کچھ ہو مگر اک وفا نہیں کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا
سنو گے حال جو میرا تو داد کیا دو گے
یہی کہو گے کہ جھوٹا ہے تو زمانے کا
وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے
عیسیٰ کبھی نہ جاتے لیکن تمہارے غم میں
وہ بھی تو مر رہے ہیں جو آسمان پر ہیں
چوکی نظر جو زاہد خانہ خراب کی
توبہ اڑا کے لے گئی بوتل شراب کی
آہ رسا خدا کے لیے دیکھ بھال کے
ان کا بھی گھر ملا ہوا دشمن کے گھر سے ہے
جلے گا دل تمہیں بزم عدو میں دیکھ کر میرا
دھواں بن بن کے ارماں محفل دشمن سے نکلیں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا
اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ