Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nomaan Shauque's Photo'

نعمان شوق

1965 | نوئیڈا, انڈیا

ممتاز ما بعد جدید شاعر، آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ

ممتاز ما بعد جدید شاعر، آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ

نعمان شوق کے اشعار

10.1K
Favorite

باعتبار

ترے بغیر کوئی اور عشق ہو کیسے

کہ مشرکوں کے لئے بھی خدا ضروری ہے

بڑے گھروں میں رہی ہے بہت زمانے تک

خوشی کا جی نہیں لگتا غریب خانے میں

ہمیں برا نہیں لگتا سفید کاغذ بھی

یہ تتلیاں تو تمہارے لئے بناتے ہیں

دور جتنا بھی چلا جائے مگر

چاند تجھ سا تو نہیں ہو سکتا

ہم بہت پچھتائے آوازوں سے رشتہ جوڑ کر

شور اک لمحے کا تھا اور زندگی بھر کا سکوت

لپٹا بھی ایک بار تو کس احتیاط سے

ایسے کہ سارا جسم معطر نہ ہو سکے

میں خانقاہ بدن سے اداس لوٹ آیا

یہاں بھی چاہنے والوں میں خاک بٹتی ہے

خیالی دوستوں کے عکس سے کھیلو گے کب تک

میرے بچے کبھی مل لو بھرے گھر میں کسی سے

نام ہی لے لے تمہارا کوئی

دونوں ہاتھوں سے لٹاؤں خود کو

غم اس قدر نہیں تھے ڈھلے جتنے شعر میں

دولت بنائی خوب متاع قلیل سے

موسم وجد میں جا کر میں کہاں رقص کروں

اپنی دنیا مری وحشت کے برابر کر دے

کبھی لباس کبھی بال دیکھنے والے

تجھے پتہ ہی نہیں ہم سنور چکے دل سے

آئنے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار

ایک دن اپنی ہی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں

آپ کی سادہ دلی سے تنگ آ جاتا ہوں میں

میرے دل میں رہ چکے ہیں اس قدر ہشیار لوگ

چاہتا ہوں میں تشدد چھوڑنا

خط ہی لکھتے ہیں جوابی لوگ سب

چکھ لیا اس نے پیار تھوڑا سا

اور پھر زہر کر دیا ہے مجھے

سارے چقماق بدن آئے تھے تیاری سے

روشنی خوب ہوئی رات کی چنگاری سے

مجھ کو بھی پہلے پہل اچھے لگے تھے یہ گلاب

ٹہنیاں جھکتی ہوئیں اور تتلیاں اڑتی ہوئیں

بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے

کھل رہے ہیں مجھ میں دنیا کے سبھی نایاب پھول

اتنی سرکش خاک کو کس ابر نے نم کر دیا

بدن نے کتنی بڑھا لی ہے سلطنت اپنی

بسے ہیں عشق و ہوس سب اسی علاقے میں

اس کا ملنا کوئی مذاق ہے کیا

بس خیالوں میں جی اٹھا ہوں میں

آنکھ کھل جائے تو گھر ماتم کدہ بن جائے گا

چل رہی ہے سانس جب تک چل رہا ہوں نیند میں

کنارے پاؤں سے تلوار کر دی

ہمیں یہ جنگ ایسے جیتنی تھی

جانے کس امید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ

نفرتوں کی شام یاد آئے پرانے یار لوگ

سنائی دیتی ہے سات آسماں میں گونج اپنی

تجھے پکار کے حیران اڑتے پھرتے ہیں

محبت والے ہیں کتنے زمیں پر

اکیلا چاند ہی بے نور ہے کیا

یہ خواب کون دکھانے لگا ترقی کے

جب آدمی بھی عدد میں شمار ہونے لگے

آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم

ایک مجمع کے لیے شعر سناتے ہوئے ہم

سنا ہے شور سے حل ہوں گے سارے مسئلے اک دن

سو ہم آواز کو آواز سے ٹکراتے رہتے ہیں

ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ

ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے

اب اسے غرقاب کرنے کا ہنر بھی سیکھ لوں

اس شکارے کو اگر پھولوں سے ڈھک سکتا ہوں میں

وہ طنز کو بھی حسن طلب جان خوش ہوئے

الٹا پڑھا گیا، مرا پیغام اور تھا

کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے

نہا کے روشنیوں میں لگے بہکتے ہوئے

خدا معاف کرے سارے منصفوں کے گناہ

ہم ہی نے شرط لگائی تھی ہار جانے کی

پاؤں کے نیچے سے پہلے کھینچ لی ساری زمیں

پیار سے پھر نام میرا شاہ عالم رکھ دیا

جان جاں مایوس مت ہو حالت بازار سے

شاید اگلے سال تک دیوانہ پن ملنے لگے

پھول وہ رکھتا گیا اور میں نے روکا تک نہیں

ڈوب بھی سکتی ہے میری ناؤ سوچا تک نہیں

پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا

ہمیں ڈرانے لگے وہ ہماری طاقت سے

اتنی تعظیم ہوئی شہر میں عریانی کی

رات آنکھوں نے بھی جی بھر کے بدن خوانی کی

عشق کا مطلب کسے معلوم تھا

جن دنوں آئے تھے ہم دل ہار کے

ذرا یہ ہاتھ میرے ہاتھ میں دو

میں اپنی دوستی سے تھک چکا ہوں

فلک کا تھال ہی ہم نے الٹ ڈالا زمیں پر

تمہاری طرح کا کوئی ستارہ ڈھونڈنے میں

میں اگر تم کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے

اپنے لکھے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں

ایسی ہی ایک شب میں کسی سے ملا تھا دل

بارش کے ساتھ ساتھ برستی ہے روشنی

وہ تو کہیے آپ کی خوشبو نے پہچانا مجھے

عطر کہہ کے جانے کیا کیا بیچتے عطار لوگ

میں اپنے سائے میں بیٹھا تھا کتنی صدیوں سے

تمہاری دھوپ نے دیوار توڑ دی میری

فقیر لوگ رہے اپنے اپنے حال میں مست

نہیں تو شہر کا نقشہ بدل چکا ہوتا

میری خوشیوں سے وہ رشتہ ہے تمہارا اب تک

عید ہو جائے اگر عید مبارک کہہ دو

جزیہ وصول کیجئے یا شہر اجاڑیے

اب تو خدا بھی آپ کی مرضی کا ہو گیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے