Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اظہرنقوی کے اشعار

706
Favorite

باعتبار

دکھ سفر کا ہے کہ اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم

کیا سبب ہے وقت رخصت ہم سفر خاموش ہیں

اک میں کہ ایک غم کا تقاضا نہ کر سکا

اک وہ کہ اس نے مانگ لئے اپنے خواب تک

ایک اک سانس میں صدیوں کا سفر کاٹتے ہیں

خوف کے شہر میں رہتے ہیں سو ڈر کاٹتے ہیں

ایک ہنگامہ سا یادوں کا ہے دل میں اظہرؔ

کتنا آباد ہوا شہر یہ ویراں ہو کر

کل شجر کی گفتگو سنتے تھے اور حیرت میں تھے

اب پرندے بولتے ہیں اور شجر خاموش ہیں

عجب حیرت ہے اکثر دیکھتا ہے میرے چہرے کو

یہ کس نا آشنا کا آئنے میں عکس رہتا ہے

دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے

جیسے کوئی ضدی بچہ روتے روتے سو جاتا ہے

کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ

نئی موجوں میں رہتا ہے پرانے پانیوں کا دکھ

پھر ریت کے دریا پہ کوئی پیاسا مسافر

لکھتا ہے وہی ایک کہانی کئی دن سے

عجب نہیں کہ بچھڑنے کا فیصلہ کر لے

اگر یہ دل ہے تو نادان ہو بھی سکتا ہے

تیرا ہی رقص سلسلہ عکس خواب ہے

اس اشک نیم شب سے شب ماہتاب تک

شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں

کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں

رات بھر چاند سے ہوتی رہیں تیری باتیں

رات کھولے ہیں ستاروں نے ترے راز بہت

جس رات کھلا مجھ پہ وہ مہتاب کی صورت

وہ رات ستاروں کی امانت ہے سحر تک

خوف ایسا ہے کہ ہم بند مکانوں میں بھی

سونے والوں کی حفاظت کے لئے جاگتے ہیں

اب تو مجھ کو بھی نہیں ملتی مری کوئی خبر

کتنا گمنام ہوا ہوں میں نمایاں ہو کر

جمی ہے گرد آنکھوں میں کئی گمنام برسوں کی

مرے اندر نہ جانے کون بوڑھا شخص رہتا ہے

خواب مٹھی میں لیے پھرتے ہیں صحرا صحرا

ہم وہی لوگ ہیں جو دھوپ کے پر کاٹتے ہیں

پتھر جیسی آنکھوں میں سورج کے خواب لگاتے ہیں

اور پھر ہم اس خواب کے ہر منظر سے باہر رہتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے