Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اظہرنقوی کے اشعار

733
Favorite

باعتبار

شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں

کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں

رات بھر چاند سے ہوتی رہیں تیری باتیں

رات کھولے ہیں ستاروں نے ترے راز بہت

عجب حیرت ہے اکثر دیکھتا ہے میرے چہرے کو

یہ کس نا آشنا کا آئنے میں عکس رہتا ہے

دکھ سفر کا ہے کہ اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم

کیا سبب ہے وقت رخصت ہم سفر خاموش ہیں

دل کچھ دیر مچلتا ہے پھر یادوں میں یوں کھو جاتا ہے

جیسے کوئی ضدی بچہ روتے روتے سو جاتا ہے

پھر ریت کے دریا پہ کوئی پیاسا مسافر

لکھتا ہے وہی ایک کہانی کئی دن سے

کل شجر کی گفتگو سنتے تھے اور حیرت میں تھے

اب پرندے بولتے ہیں اور شجر خاموش ہیں

عجب نہیں کہ بچھڑنے کا فیصلہ کر لے

اگر یہ دل ہے تو نادان ہو بھی سکتا ہے

اک میں کہ ایک غم کا تقاضا نہ کر سکا

اک وہ کہ اس نے مانگ لئے اپنے خواب تک

خواب مٹھی میں لیے پھرتے ہیں صحرا صحرا

ہم وہی لوگ ہیں جو دھوپ کے پر کاٹتے ہیں

جمی ہے گرد آنکھوں میں کئی گمنام برسوں کی

مرے اندر نہ جانے کون بوڑھا شخص رہتا ہے

پتھر جیسی آنکھوں میں سورج کے خواب لگاتے ہیں

اور پھر ہم اس خواب کے ہر منظر سے باہر رہتے ہیں

جس رات کھلا مجھ پہ وہ مہتاب کی صورت

وہ رات ستاروں کی امانت ہے سحر تک

کناروں سے جدا ہوتا نہیں طغیانیوں کا دکھ

نئی موجوں میں رہتا ہے پرانے پانیوں کا دکھ

خوف ایسا ہے کہ ہم بند مکانوں میں بھی

سونے والوں کی حفاظت کے لئے جاگتے ہیں

اب تو مجھ کو بھی نہیں ملتی مری کوئی خبر

کتنا گمنام ہوا ہوں میں نمایاں ہو کر

تیرا ہی رقص سلسلہ عکس خواب ہے

اس اشک نیم شب سے شب ماہتاب تک

ایک ہنگامہ سا یادوں کا ہے دل میں اظہرؔ

کتنا آباد ہوا شہر یہ ویراں ہو کر

ایک اک سانس میں صدیوں کا سفر کاٹتے ہیں

خوف کے شہر میں رہتے ہیں سو ڈر کاٹتے ہیں

Recitation

بولیے