Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aziz Bano Darab Wafa's Photo'

عزیز بانو داراب وفا

1926 - 2005 | لکھنؤ, انڈیا

لکھنو کی ممتاز شاعرہ جنھوں نے اپنے اظہار میں نسائی جذبات کو جگہ دی

لکھنو کی ممتاز شاعرہ جنھوں نے اپنے اظہار میں نسائی جذبات کو جگہ دی

عزیز بانو داراب وفا کے اشعار

8.9K
Favorite

باعتبار

ایک مدت سے خیالوں میں بسا ہے جو شخص

غور کرتے ہیں تو اس کا کوئی چہرہ بھی نہیں

شیو تو نہیں ہم پھر بھی ہم نے دنیا بھر کے زہر پئے

اتنی کڑواہٹ ہے منہ میں کیسے میٹھی بات کریں

میرے حالات نے یوں کر دیا پتھر مجھ کو

دیکھنے والوں نے دیکھا بھی نہ چھو کر مجھ کو

چراغ بن کے جلی تھی میں جس کی محفل میں

اسے رلا تو گیا کم سے کم دھواں میرا

اہمیت کا مجھے اپنی بھی تو اندازہ ہے

تم گئے وقت کی مانند گنوا دو مجھ کو

میں نے یے سوچ کے بوئے نہیں خوابوں کے درخت

کون جنگل میں اگے پیڑ کو پانی دے گا

ہم ایسے سورما ہیں لڑ کے جب حالات سے پلٹے

تو بڑھ کے زندگی نے پیش کیں بیساکھیاں ہم کو

میں جب بھی اس کی اداسی سے اوب جاؤں گی

تو یوں ہنسے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا

زندگی کے سارے موسم آ کے رخصت ہو گئے

میری آنکھوں میں کہیں برسات باقی رہ گئی

ہم نے سارا جیون بانٹی پیار کی دولت لوگوں میں

ہم ہی سارا جیون ترسے پیار کی پائی پائی کو

یہ حوصلہ بھی کسی روز کر کے دیکھوں گی

اگر میں زخم ہوں اس کا تو بھر کے دیکھوں گی

کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی

میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا

ہماری بے بسی شہروں کی دیواروں پہ چپکی ہے

ہمیں ڈھونڈے گی کل دنیا پرانے اشتہاروں میں

ہم نے سب کو مفلس پا کے توڑ دیا دل کا کشکول

ہم کو کوئی کیا دے دے گا کیوں منہ دیکھی بات کریں

جن کو دیوار و در بھی ڈھک نہ سکے

اس قدر بے لباس ہیں کچھ لوگ

کہنے والا خود تو سر تکیے پہ رکھ کر سو گیا

میری بے چاری کہانی رات بھر روتی رہی

تمام عمر کسی اور نام سے مجھ کو

پکارتا رہا اک اجنبی زبان میں وہ

میری تصویر بنانے کو جو ہاتھ اٹھتا ہے

اک شکن اور مرے ماتھے پہ بنا دیتا ہے

وہ یہ کہہ کہہ کے جلاتا تھا ہمیشہ مجھ کو

اور ڈھونڈے گا کہیں میرے علاوہ مجھ کو

میں روشنی ہوں تو میری پہنچ کہاں تک ہے

کبھی چراغ کے نیچے بکھر کے دیکھوں گی

ہمیں دی جائے گی پھانسی ہمارے اپنے جسموں میں

اجاڑی ہیں تمناؤں کی لاکھوں بستیاں ہم نے

میں اپنے جسم میں رہتی ہوں اس تکلف سے

کہ جیسے اور کسی دوسرے کے گھر میں ہوں

میں کس زبان میں اس کو کہاں تلاش کروں

جو میری گونج کا لفظوں سے ترجمہ کر دے

میں بھی ساحل کی طرح ٹوٹ کے بہہ جاتی ہوں

جب صدا دے کے بلاتا ہے سمندر مجھ کو

شہر خوابوں کا سلگتا رہا اور شہر کے لوگ

بے خبر سوئے ہوئے اپنے مکانوں میں ملے

ہم سے زیادہ کون سمجھتا ہے غم کی گہرائی کو

ہم نے خوابوں کی مٹی سے پاٹا ہے اس کھائی کو

اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے

اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو

میرے اندر ایک دستک سی کہیں ہوتی رہی

زندگی اوڑھے ہوئے میں بے خبر سوتی رہی

میں اس کی دھوپ ہوں جو میرا آفتاب نہیں

یہ بات خود پہ میں کس طرح آشکار کروں

جانے کتنے راز کھلیں جس دن چہروں کی راکھ دھلے

لیکن سادھو سنتوں کو دکھ دے کر پاپ کمائے کون

چراغوں نے ہمارے سائے لمبے کر دیئے اتنے

سویرے تک کہیں پہنچیں گے اب اپنے برابر ہم

اس نے چاہا تھا کہ چھپ جائے وہ اپنے اندر

اس کی قسمت کہ کسی اور کا وہ گھر نکلا

آئینہ خانے میں کھینچے لئے جاتا ہے مجھے

کون میری ہی عدالت میں بلاتا ہے مجھے

زرد چہروں کی کتابیں بھی ہیں کتنی مقبول

ترجمے ان کے جہاں بھر کی زبانوں میں ملے

مجھے کہاں مرے اندر سے وہ نکالے گا

پرائی آگ میں کوئی نہ ہاتھ ڈالے گا

مرے اندر ڈھنڈورا پیٹتا ہے کوئی رہ رہ کے

جو اپنی خیریت چاہے وہ بستی سے نکل جائے

مجھے چکھتے ہی کھو بیٹھا وہ جنت اپنے خوابوں کی

بہت ملتا ہوا تھا زندگی سے ذائقہ میرا

تشنگی میری مسلم ہے مگر جانے کیوں

لوگ دے دیتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیالے مجھ کو

زمین موم کی ہوتی ہے میرے قدموں میں

مرا شریک سفر آفتاب ہوتا ہے

دھوپ میری ساری رنگینی اڑا لے جائے گی

شام تک میں داستاں سے واقعہ ہو جاؤں گی

عمر بھر راستے گھیرے رہے اس شخص کا گھر

عمر بھر خوف کے مارے نہ وہ باہر نکلا

گئے موسم میں میں نے کیوں نہ کاٹی فصل خوابوں کی

میں اب جاگی ہوں جب پھل کھو چکے ہیں ذائقہ اپنا

اس گھر کے چپے چپے پر چھاپ ہے رہنے والے کی

میرے جسم میں مجھ سے پہلے شاید کوئی رہتا تھا

ہم ہیں احساس کے سیلاب زدہ ساحل پر

دیکھیے ہم کو کہاں لے کے کنارا جائے

خواب دروازوں سے داخل نہیں ہوتے لیکن

یہ سمجھ کر بھی وہ دروازہ کھلا رکھے گا

زندگی بھر میں کھلی چھت پہ کھڑی بھیگا کی

صرف اک لمحہ برستا رہا ساون بن کے

وقت حاکم ہے کسی روز دلا ہی دے گا

دل کے سیلاب زدہ شہر پہ قبضہ مجھ کو

مرے اندر سے یوں پھینکی کسی نے روشنی مجھ پر

کہ پل بھر میں مری ساری حقیقت کھل گئی مجھ پر

چمن پہ بس نہ چلا ورنہ یہ چمن والے

ہوائیں بیچتے نیلام رنگ و بو کرتے

میری خلوت میں جہاں گرد جمی پائی گئی

انگلیوں سے تری تصویر بنی پائی گئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے