Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Faza Ibn e Faizi's Photo'

فضا ابن فیضی

1923 - 2009 | مئو ناتھ بھنجن, انڈیا

بے مثل شاعری کے لئے مشہور

بے مثل شاعری کے لئے مشہور

فضا ابن فیضی کے اشعار

3.1K
Favorite

باعتبار

آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا

وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا

غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا

نہ آیا ہم کو برہنہ گزارشیں لکھنا

اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا

قطرہ گہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا

زندگی خود کو نہ اس روپ میں پہچان سکی

آدمی لپٹا ہے خوابوں کے کفن میں ایسا

اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے

ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا

ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود

دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا

کس طرح عمر کو جاتے دیکھوں

وقت کو آنکھوں سے اوجھل کر دے

مجھے تراش کے رکھ لو کہ آنے والا وقت

خزف دکھا کے گہر کی مثال پوچھے گا

وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے

جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا

جلا ہے شہر تو کیا کچھ نہ کچھ تو ہے محفوظ

کہیں غبار کہیں روشنی سلامت ہے

ہر اک قیاس حقیقت سے دور تر نکلا

کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا

شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضاؔ

جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر

ہم حسین غزلوں سے پیٹ بھر نہیں سکتے

دولت سخن لے کر بے فراغ ہیں یارو

کسی لمحے تو خود سے لا تعلق بھی رہو لوگو

مسائل کم نہیں پھر زندگی بھر سوچتے رہنا

یوں معانی سے بہت خاص ہے رشتہ اپنا

زندگی کٹ گئی لفظوں کو خبر کرنے میں

تلاش معنی مقصود اتنی سہل نہ تھی

میں لفظ لفظ اترتا گیا بہت گہرا

خبر مجھ کو نہیں میں جسم ہوں یا کوئی سایا ہوں

ذرا اس کی وضاحت دھوپ کی چادر پہ لکھ دینا

لوگ مجھ کو مرے آہنگ سے پہچان گئے

کون بدنام رہا شہر سخن میں ایسا

پلکوں پر اپنی کون مجھے اب سجائے گا

میں ہوں وہ رنگ جو ترے پیکر سے کٹ گیا

خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ

نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا

تو ہے معنی پردۂ الفاظ سے باہر تو آ

ایسے پس منظر میں کیا رہنا سر منظر تو آ

اب مناسب نہیں ہم عصر غزل کو یارو

کسی بجتی ہوئی پازیب کا گھنگھرو لکھنا

کہاں وہ لوگ جو تھے ہر طرف سے نستعلیق

پرانی بات ہوئی چست بندشیں لکھنا

تجھے ہوس ہو جو مجھ کو ہدف بنانے کی

مجھے بھی تیر کی صورت کماں میں رکھ دینا

وہ میل جول حسن و بصیرت میں اب کہاں

جو سلسلہ تھا پھول کا پتھر سے کٹ گیا

نطق سے لب تک ہے صدیوں کا سفر

خامشی یہ دکھ بھلا جھیلے گی کیا

یہ تماشا دیدنی ٹھہرا مگر دیکھے گا کون

ہو گئے ہم راکھ تو دست دعا روشن ہوا

اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت

میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا

دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں

تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر

شب گزیدہ کو ترے اس کی خبر ہی کب تھی

دن جو آئے گا غم لا متناہی دے گا

لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا

یہاں بھی کام نہ عرض ہنر سے نکلے گا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے