حسیب الحسن کے اشعار
حضور آپ تکلف میں کیوں پڑے ہوئے ہیں
مرے ہوؤں کے جنم دن نہیں مناتا کوئی
تجھے پتہ تھا میں تیرے بغیر کچھ بھی نہیں
ذرا ترس بھی نہ آیا تجھے بچھڑتے ہوئے
پاگل کیا ہے عشق نے آدھا جو رہ گیا
اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہارے حسن کا صدقہ اترنا لازمی ہے
سو یوں کرو کسی بچے کو ماتھا چومنے دو
پہلے بھی میرے گاؤں میں گھائل ہیں تین شخص
آزار آگہی کا میں چوتھا مریض ہوں
نہ میرے پاس تسلی نہ اس کے پاس آنسو
خدا کے سامنے بے بس کھڑے ہیں ہم دونوں
ہمارے دل سے نکلتے ہوؤں کو سات سلام
وہ اس لیے کہ وہ اس حبس میں مکین رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمی پریم چند کی کہانیوں کے لوگ ہیں
وہ لوگ جن کی عمر کو ادھار نے نگل لیا
میں کئی کام تو دانستہ غلط کرتا تھا
تاکہ وہ نقص نکالے کہ نہیں ایسے کر
لاکھ میٹھے ہوں ترے شہر کے چشمے لیکن
ہم ترے شہر کو خوش آب نہیں کہہ سکتے
زمانے بھر کی دعائیں مرے لئے تھیں مگر
میں چاہتا ہی نہیں تھا کہ صبر آ جائے
ہماری خیر ہے لیکن بس اک گزارش ہے
ہمارے بعد کسی سے بھی یوں نہیں کرنا
تمہارے جانے کے بعد ہم نے سکون ڈھونڈا کچھ اس طرح سے
بچھڑنے والوں کے پاؤں پڑنا انہیں جدائی سے باز رکھنا
میں بہت سوچ کے بچھڑا تھا محرم میں حسیبؔ
میں نے اس شخص کو رونے کی سہولت دی تھی
خوف اس درجہ مسلط تھا ترے بعد حسنؔ
دل دھڑکتا تھا تو ہم خود سے لپٹ جاتے تھے
داد کب پاتے ہیں اس میرؔ کی دیوانی سے
زنگ آلود تخیل سے کھرونچے ہوئے شعر
پچھلے جنم کا کوئی تعلق تھا اس کے ساتھ
دیکھے بغیر مجھ کو خد و خال یاد تھے
خدا کے بعد اسے مجھ پہ مان تھا کیونکہ
خدا کے بعد اسے میں ہی پیار کرتا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اسے بتانا پرندے اسے بلاتے ہیں
اسے بتانا کہ شاعر اداس ہے اس کا
یہ ساتھ گاؤں میں ایک چھوٹا سا کام ہے بس
مری اداسی اداس مت ہو میں آ رہا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں
فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قسم ہے تیرے تغافل کی تجھ سے پہلے مجھے
نہیں پتہ تھا کہ احساس کمتری کیا ہے
تمہاری آنکھوں پہ نظم کہنے سے پہلے ہم نے بھگوئی آنکھیں
سنا ہوا تھا زمین نم ہو تو اچھی ہوتی ہے کاشتکاری
ہماری وحشت کسی پرانے کھنڈر کے آسیب کی امانت
ہماری غزلیں ہماری دیوی کی ایک ترچھی نظر کا صدقہ
اب اس کی مرضی مسافر کہے کہ گرد پا
میں اس کے ساتھ مسلسل سفر میں رہتا ہوں
ابھی سے سوچ لو پھر واپسی نہیں ہوگی
طلسم بڑھتا ہی جائے گا دن بہ دن اس کا
ستارے دیکھنے والے ہمیں بتاتے ہیں
ہمارے ہونٹ تمہاری جبیں کو ترسیں گے
تمہارا حسن یہ کھلتا ہے جیسے دھیرے سے
ہمارے شعر بھی ایسے ہی دیر پا ہوں گے
ہمارے بعد کوئی سر پرست مل نہ سکا
یتیم خانے میں رکھا گیا محبت کو
تیرے خوابوں کے پیچھے بھاگی تھیں
میری آنکھوں میں پڑ گئے چھالے