Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Haseebul Hasan's Photo'

حسیب الحسن

1995 | خوشاب, پاکستان

حسیب الحسن کے اشعار

313
Favorite

باعتبار

حضور آپ تکلف میں کیوں پڑے ہوئے ہیں

مرے ہوؤں کے جنم دن نہیں مناتا کوئی

تجھے پتہ تھا میں تیرے بغیر کچھ بھی نہیں

ذرا ترس بھی نہ آیا تجھے بچھڑتے ہوئے

پاگل کیا ہے عشق نے آدھا جو رہ گیا

اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں

تمہارے حسن کا صدقہ اترنا لازمی ہے

سو یوں کرو کسی بچے کو ماتھا چومنے دو

پہلے بھی میرے گاؤں میں گھائل ہیں تین شخص

آزار آگہی کا میں چوتھا مریض ہوں

نہ میرے پاس تسلی نہ اس کے پاس آنسو

خدا کے سامنے بے بس کھڑے ہیں ہم دونوں

ہمارے دل سے نکلتے ہوؤں کو سات سلام

وہ اس لیے کہ وہ اس حبس میں مکین رہے

ہمی پریم چند کی کہانیوں کے لوگ ہیں

وہ لوگ جن کی عمر کو ادھار نے نگل لیا

میں کئی کام تو دانستہ غلط کرتا تھا

تاکہ وہ نقص نکالے کہ نہیں ایسے کر

لاکھ میٹھے ہوں ترے شہر کے چشمے لیکن

ہم ترے شہر کو خوش آب نہیں کہہ سکتے

زمانے بھر کی دعائیں مرے لئے تھیں مگر

میں چاہتا ہی نہیں تھا کہ صبر آ جائے

شاہزادی کی مرضی ہے لیکن

مجھ سے اچھا غلام کوئی نہیں

ہماری خیر ہے لیکن بس اک گزارش ہے

ہمارے بعد کسی سے بھی یوں نہیں کرنا

تمہارے جانے کے بعد ہم نے سکون ڈھونڈا کچھ اس طرح سے

بچھڑنے والوں کے پاؤں پڑنا انہیں جدائی سے باز رکھنا

میں بہت سوچ کے بچھڑا تھا محرم میں حسیبؔ

میں نے اس شخص کو رونے کی سہولت دی تھی

خوف اس درجہ مسلط تھا ترے بعد حسنؔ

دل دھڑکتا تھا تو ہم خود سے لپٹ جاتے تھے

داد کب پاتے ہیں اس میرؔ کی دیوانی سے

زنگ آلود تخیل سے کھرونچے ہوئے شعر

پچھلے جنم کا کوئی تعلق تھا اس کے ساتھ

دیکھے بغیر مجھ کو خد و خال یاد تھے

خدا کے بعد اسے مجھ پہ مان تھا کیونکہ

خدا کے بعد اسے میں ہی پیار کرتا تھا

اسے بتانا پرندے اسے بلاتے ہیں

اسے بتانا کہ شاعر اداس ہے اس کا

یہ ساتھ گاؤں میں ایک چھوٹا سا کام ہے بس

مری اداسی اداس مت ہو میں آ رہا ہوں

ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں

فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا

قسم ہے تیرے تغافل کی تجھ سے پہلے مجھے

نہیں پتہ تھا کہ احساس کمتری کیا ہے

تمہاری آنکھوں پہ نظم کہنے سے پہلے ہم نے بھگوئی آنکھیں

سنا ہوا تھا زمین نم ہو تو اچھی ہوتی ہے کاشتکاری

ہم ایسے لوگ ضائع ہو رہے ہیں

خدا چپ چاپ دیکھے جا رہا ہے

ہماری وحشت کسی پرانے کھنڈر کے آسیب کی امانت

ہماری غزلیں ہماری دیوی کی ایک ترچھی نظر کا صدقہ

اس کے معیار پر خدا لائے

اس نظر تک تو آ گئے ہیں ہم

اب اس کی مرضی مسافر کہے کہ گرد پا

میں اس کے ساتھ مسلسل سفر میں رہتا ہوں

ابھی سے سوچ لو پھر واپسی نہیں ہوگی

طلسم بڑھتا ہی جائے گا دن بہ دن اس کا

ستارے دیکھنے والے ہمیں بتاتے ہیں

ہمارے ہونٹ تمہاری جبیں کو ترسیں گے

تمہارا حسن یہ کھلتا ہے جیسے دھیرے سے

ہمارے شعر بھی ایسے ہی دیر پا ہوں گے

ہمارے بعد کوئی سر پرست مل نہ سکا

یتیم خانے میں رکھا گیا محبت کو

تیرے خوابوں کے پیچھے بھاگی تھیں

میری آنکھوں میں پڑ گئے چھالے

Recitation

بولیے