Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ijtiba Rizvi's Photo'

اجتبیٰ رضوی

1908 - 1991 | چھپرا, انڈیا

اجتبیٰ رضوی کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

افسردگی بھی حسن ہے تابندگی بھی حسن

ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے

زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا

یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا

ہزار آرزو ہو تم یقیں ہو تم گماں ہو تم

قفس نصیب روح کی امید آشیاں ہو تم

آگ پانی سے بھاپ اٹھتی رہی

ہم سمجھتے رہے محبت ہے

انسان کو دل ملا مگر کیا

اندھے کے ہاتھ میں دیا ہے

خوب تماشا ہم کو بنایا آپ تماشا آپ ہوئے

ہم کو رسوا کرنے نکلے کیسے رسوا آپ ہوئے

ایک دن رندوں نے مسجد میں نماز آ کے پڑھی

دوسرے دن اسے مے خانہ بنا کر چھوڑا

ہوں وہ قطرہ کہ نہیں یاد سمندر مجھ کو

مگر آتی ہے اک آواز برابر مجھ کو

یہ کیسا ماجرا ہے ہر مصور نقش حیرت ہے

تری تصویر جب کھینچی مری تصویر اتر آئی

میں ابھی چپ ہوں تو میخانے میں خاموشی ہے

کوئی پیغام تو دے اے لب ساغر مجھ کو

گھومتے کٹتا ہے کوچے میں ترے دن کا دن

بیٹھے کٹ جاتی ہے چوکھٹ پہ تری رات کی رات

مرے ساز نفس کی خامشی پر روح کہتی ہے

نہ آئی مجھ کو نیند اور سو گیا افسانہ خواں میرا

فتنے جگا کے دہر میں آگ لگا کے شہر میں

جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نہیں

جینے کے لئے بلوائیں تمہیں تم مرتے دم آؤ بھیڑ لئے

جینے کی تمنا کون کرے مرنے کو تماشا کون کرے

آگ ہے بجلی آگ ہیں ذرے آگ ہے سورج آگ ہیں تارے

ہم نے نہ کی تھی شوخ نگاہی آپ نے کیوں عالم کو جلایا

دل کی دھڑکن جو ہے مدار حیات

اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے

سنتے سنتے انہیں نیند آ گئی ناداں دل نے

شکوۂ ہجر کو افسانہ بنا کر چھوڑا

خرد کو خانۂ دل کا نگہباں کر دیا ہم نے

یہ گھر آباد ہوتا اس کو ویراں کر دیا ہم نے

یہ ہماری آپ کی دوریاں یہ کبھی کبھی کی حضوریاں

ہیں عجب طرح کی لگاوٹیں رہ و رسم دور و دراز میں

گھونگھٹ الٹو کہ تمہیں پوج کے کافر ہو جائے

دل بد بخت جو ایمان سے بھی شاد نہیں

ہم تو آشفتہ سری سے نہ سنورنے پائے

آپ سے کیوں نہ سنوارا گیا گیسو اپنا

پکارتے ہیں کہ گونج اس پکار کی رہ جائے

دعا دعا تو کہی جائے گی اثر نہ سہی

چرانے کو چرا لایا میں جلوے روئے روشن سے

مگر اب بجلیاں لپٹی ہوئی ہیں دل کے دامن سے

اس حرص و ہوس کے میلے میں ہم جنس محبت لائے ہیں

سب سستے مال کے گاہک ہیں یہ مہنگا سودا کون کرے

خرد والوں کو کہنے دو کہ ہیں سات آسماں سر پر

جنوں والو ذرا ہمت کرو بس ایک زینا ہے

ایسی آباد تری بزم ہے اے جان نشاط

جیسی کعبہ کی سحر جیسی خرابات کی رات

ہمارے خوف کی خلاقیاں خدا کی پناہ

وہ بجلیاں ہیں نظر میں جو آسماں میں نہیں

کھنڈر میں ماہ کامل کا سنورنا اس کو کہتے ہیں

تم اترے دل میں جب دل کو بیاباں کر دیا ہم نے

دیا ہے غم کہ نچوڑے کبھی کبھی دل کو

زمین چشم ہوس ورنہ کیسے تر ہوگی

روح کی گونج بنا لیتی ہے خود اپنا مقام

مجھ کو دیکھو کہ ہوا دار بھی منبر مجھ کو

شام ہوئی جلے چراغ اٹھ گئے راہ سے فقیر

جن کا کہیں کوئی نہیں رہ گئے رہ گزار میں

انہی رفیقان سست رو سے برے بھلے رسم و راہ نبھتی

مگر کیا دل نے ان کا پیچھا جو ہر قدم چھوڑے جا رہے ہیں

لکھا ہوا انہی ذرات کے صحیفوں میں

مرا فسانہ ہے لیکن مری زباں میں نہیں

رستے کی دوکان پہ رہرو ایک نشانی چھوڑ چلا

جس کوزے سے پیاس بجھائی اس کوزے کو توڑ چلا

ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا

شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا

کبھی اس سمت کو بھی بہر تماشا نکلو

دل کا حیرت کدہ ایسا کوئی ویراں بھی نہیں

معنی و صورت وحدت و کثرت ذرہ و صحرا آپ ہوئے

آپ تو کچھ ہوتے ہی نہیں تھے کہیے کیا کیا آپ ہوئے

زہد کی آستیں ٹٹول دیکھ کہاں صنم نہیں

سنگ سیاہ ناگزیر ورنہ حرم حرم نہیں

اپنی تصویر مجازی کوئی رکھ دو کہ کہیں

کاروان نگہ شوق کو منزل ہو جائے

یہ کبر و ناز اب کیا جب سر بازار تم نکلے

مگر ہاں یہ کہو بہتوں نے دیکھا کم نے پہچانا

اف یہ دراز دستئ ارمان مشت خاک

محمل میں گرد پڑتی ہے لیلیٰ کہاں رہے

سجدہ وہ ہے بہ رب کعبہ

جس کو قید حرم نہیں ہے

ہوش و خرد میں آگ لگا دی خرمن کیف و کم کو جلایا

شعلہ بنے اور سینے سے لپٹے آپ جلے اور ہم کو جلایا

جلوے کی بھیک دے کے وہ ہٹنے لگے تھے خود

دامن پکڑ لیا نگہ اعتبار نے

پکارتی رہ گئی حقیقت پڑا رہا جستجو کا صحرا

ٹھہر گئے ہم خدا کی مسجد بنا کے کوئے بتاں سے آگے

اجاڑ ہو بھی چکا مرا دل مگر ابھی داغ دار بھی ہے

یہی خزاں تھی بہار دشمن جو یادگار بہار بھی ہے

تجلی بے نقاب اور کور آنکھیں کیا قیامت ہے

کہ سورج سامنے ہے اور سیہ بختی نہیں جاتی

روز ازل سے آپ کی میری کیسی رسم و راہ نبھی

اول اول ہم ہوئے شیدا آخر شیدا آپ ہوئے

خدا پرستی کا بیج بو کر خودی کا دل میں فروغ دیکھو

یہیں سے جھوٹے خدا اگے ہیں بڑی خطرناک یہ زمیں ہے

دیدنی ہے یہ سراسیمگئ دیدۂ شوق

کہ ترے در پہ کھڑے ہیں ترا در یاد نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے