Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mardan Ali Khan Rana's Photo'

مردان علی خاں رانا

- 1879

مردان علی خاں رانا کے اشعار

1.9K
Favorite

باعتبار

راہ الفت میں ملاقات ہوئی کس کس سے

دشت میں قیس ملا کوہ میں فرہاد مجھے

نہ پوچھو ہم سفرو مجھ سے ماجرا وطن

وطن ہے مجھ پے فدا اور میں فدائے وطن

پیار کی باتیں کیجیے صاحب

لطف صحبت کا گفتگو سے ہے

تیرے آتے ہی دیکھ راحت جاں

چین ہے صبر ہے قرار ہے آج

اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے

چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے

بدن پر بار ہے پھولوں کا سایہ

مرا محبوب ایسا نازنیں ہے

پڑا ہوں میں یہاں اور دل وہیں ہے

الٰہی میں کہیں ہوں وہ کہیں ہے

ہر دم دم آخر ہے اجل سر پہ کھڑی ہے

دم بھر بھی ہم اس دم کا بھروسہ نہیں کرتے

لے قضا احسان تجھ پر کر چلے

ہم ترے آنے سے پہلے مر چلے

ہوا یقیں کہ زمیں پر ہے آج چاند گہن

وہ ماہ چہرے پہ جب ڈال کر نقاب آیا

نہ آئی بات تک بھی منہ پہ رعب حسن جاناں سے

ہزاروں سوچ کر مضمون ہم دربار میں آئے

کٹا تھا روز مصیبت خدا خدا کر کے

یہ رات آئی کہ سر پہ مرے عذاب آیا

ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے

بس یہی موت کا بہانہ ہے

ابرو آنچل میں دوپٹے کے چھپانا ہے بجا

ترک کیا میان میں رکھتے نہیں تلواروں کو

کہنا قاصد کہ اس کے جینے کا

وعدۂ وصل پر مدار ہے آج

ہرجائیوں کے عشق نے کیا کیا کیا ذلیل

رسوا رہے خراب رہے در بدر رہے

نہ نکلی حسرت دل ایک بھی ہزار افسوس

عدم سے آئے تھے کیا کیا ہم آرزو کرتے

جس کو دیکھو وو نور کا بقعہ

یہ پرستان ہے کہ لندن ہے

خاک بھی لطف زندگی نہ رہا

آرزو جی میں ہو وہ جی نہ رہا

کی ریا سے نہ شیخ نے توبہ

مر گیا وہ گناہ گار افسوس

رسم الٹی ہے خوب رویوں کی

دوست جس کے بنو وہ دشمن ہے

ناامید اہل خرابات نہیں رحمت سے

بخش دے گا وہ کریم اپنے گناہ گاروں کو

ہر دم یہ دعا مانگتے رہتے ہیں خدا سے

اللہ بچائے شب فرقت کی بلا سے

فرقت کی رات وصل کی شب کا مزہ ملا

پہروں خیال یار سے باتیں کیا کیے

دنیا میں کوئی عشق سے بد تر نہیں ہے چیز

دل اپنا مفت دیجیے پھر جی سے جائیے

ہو غریبوں کا چاک خاک رفو

تار ہاتھ آئے جب نہ دامن سے

کیوں کر بڑھاؤں ربط نہ دربان یار سے

آخر کوئی تو ملنے کی تدبیر چاہئے

ہاتھوں میں نازکی سے سنبھلتی نہیں جو تیغ

ہے اس میں کیا گناہ تیرے جاں نثارؔ کا

دیا وہ جو نہ تھا وہم و گماں میں

بھلا میں اور کیا مانگوں خدا سے

ہمارے مرگ پہ شادی عبث اغیار کرتے ہیں

جہاں سے رفتہ رفتہ ایک دن ان کو بھی جانا ہے

تم کو دیوانہ اگر ہم سے ہزاروں ہیں تو خیر

ہم بھی کر لیں گے کوئی تم سا پری رو پیدا

بدن میں زخم نہیں بدھیاں ہیں پھولوں کی

ہم اپنے دل میں اسی کو بہار جانتے ہیں

کھو گیا کوئے دلربا میں نظامؔ

لوگ کہتے ہیں مارواڑ میں ہے

ریل پر یار آئے گا شاید

مژدۂ وصل آج تار میں ہے

لبوں پہ جان ہے اک دم کا اور میہماں ہے

مریض عشق و محبت کا تیرے حال یہ ہے

یہ رقیبوں کی ہے سخن سازی

بے وفا آپ ہوں خدا نہ کرے

جو چیز ہے جہان میں وہ بے مثال ہے

ہر فرد خلق وحدت حق پر دلیل ہے

خدا را بہر استقبال جلد اے جان باہر آ

عیادت کو مری جان جہاں تشریف لاتے ہیں

میں شوق وصل میں کیا ریل پر شتاب آیا

کہ صبح ہند میں تھا شام پنچ آب آیا

دل کو لگاؤں اور سے میں تم کو چھوڑ دوں

فقرہ ہے یہ رقیب کا اور جھوٹھ بات ہے

درد سر ہے تیری سب پند و نصیحت ناصح

چھوڑ دے مجھ کو خدا پر نہ کر اب سر خالی

جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے

قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے

خوب جینے کا مزا پاتے ہیں ہم

خون دل پیتے ہیں غم کھاتے ہیں ہم

کھینچا ہے عکس قلب کی فوٹوگراف میں

شیشے میں ہے شبیہ پری کوہ قاف میں

غم سوا عشق کا مآل نہیں

کون دل ہے جو پائمال نہیں

تم ہو مجھ سے ہزار مستغنی

دل نہیں میرا یار مستغنی

اشک حسرت دیدۂ دل سے ہیں جاری ان دنوں

کار طوفاں کر رہی ہے اشک باری ان دنوں

آخر ہوا ہے حشر بپا انتظار میں

صبح شب فراق ہوئی مارواڑ میں

Recitation

بولیے