Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nooh Narvi's Photo'

نوح ناروی

1878 - 1962

اپنے بے باک لہجے کے لئے معروف ، داغ دہلوی کے شاگرد

اپنے بے باک لہجے کے لئے معروف ، داغ دہلوی کے شاگرد

نوح ناروی کے اشعار

15.8K
Favorite

باعتبار

میں کوئی حال ستم منہ سے کہوں یا نہ کہوں

اے ستم گر ترے انداز کہے دیتے ہیں

وہ خدائی کر رہے تھے جب خدا ہونے سے قبل

تو خدا جانے کریں گے کیا خدا ہونے کے بعد

دل نذر کرو ظلم سہو ناز اٹھاؤ

اے اہل تمنا یہ ہیں ارکان تمنا

جانے کو جائے فصل گل آنے کو آئے ہر برس

ہم غم زدوں کے واسطے جیسے چمن ویسے قفس

دم جو نکلا تو مدعا نکلا

ایک کے ساتھ دوسرا نکلا

مجھ کو نظروں کے لڑانے سے ہے کام

آپ کو آنکھیں دکھانے سے غرض

مجھ کو یہ فکر کہ دل مفت گیا ہاتھوں سے

ان کو یہ ناز کہ ہم نے اسے چھینا کیسا

ملنا جو نہ ہو تم کو تو کہہ دو نہ ملیں گے

یہ کیا کبھی پرسوں ہے کبھی کل ہے کبھی آج

آتے آتے راہ پر وہ آئیں گے

جاتے جاتے بد گمانی جائے گی

یہ میرے پاس جو چپ چاپ آئے بیٹھے ہیں

ہزار فتنۂ محشر اٹھائے بیٹھے ہیں

اے نوحؔ کھل چلے تھے وہ ہم سے شب وصال

اتنے میں آفتاب نمودار ہو گیا

کعبہ ہو دیر ہو دونوں میں ہے جلوہ اس کا

غور سے دیکھے اگر دیکھنے والا اس کا

ماجرائے قیس میرے ذہن میں محفوظ ہے

ایک دیوانے سے سنئے ایک دیوانے کا حال

وہ خدا جانے گھر میں ہیں کہ نہیں

کچھ کھلا اور کچھ ہے بند کواڑ

برباد وفا ہو کر مسجود جہاں دل ہو

آدھے میں بنے مسجد آدھے میں صنم خانہ

کچھ اور بن پڑی نہ سوال وصال پر

حیرت سے دیکھ کر وہ مرے منہ کو رہ گئے

بے وجہ محبت سے نہیں بول رہے ہیں

وہ باتوں ہی باتوں میں مجھے کھول رہے ہیں

اے نوحؔ توبہ عشق سے کر لی تھی آپ نے

پھر تانک جھانک کیوں ہے یہ پھر دیکھ بھال کیا

دل میں گھٹ گھٹ کر انہیں رہتے زمانہ ہو گیا

میری فریادیں بھی اب آمادۂ فریاد ہیں

برہمن اس کے ہیں شیخ اس کے ہیں راہب اس کے

دیر اس کا حرم اس کا ہے کلیسا اس کا

پوری نہ اگر ہو تو کوئی چیز نہیں ہے

نکلے جو مرے دل سے تو حسرت ہے بڑی چیز

وہ ہاتھ میں تلوار لئے سر پہ کھڑے ہیں

مرنے نہیں دیتی مجھے مرنے کی خوشی آج

عشق میں کچھ نظر نہیں آیا

جس طرف دیکھیے اندھیرا ہے

جو اہل ذوق ہیں وہ لطف اٹھا لیتے ہیں چل پھر کر

گلستاں کا گلستاں میں بیاباں کا بیاباں میں

چور ایسا مخبر ایسا چاہئے

مجھ کو دلبر کا پتا دل سے ملا

لیلیٰ ہے نہ مجنوں ہے نہ شیریں ہے نہ فرہاد

اب رہ گئے ہیں عاشق و معشوق میں ہم آپ

روز ملتے ہیں منہ پر اپنے بھبھوت

عشق میں ہم نے لے لیا بیراگ

وہ گھر سے چلے راہ میں رک گئے

ادھر آتے آتے کدھر جھک گئے

ستیاناس ہو گیا دل کا

عشق نے خوب کی اکھاڑ پچھاڑ

نوح بیٹھے ہیں چارپائی پر

چارپائی پہ نوح بیٹھے ہیں

تمہاری شوخ نظر اک جگہ کبھی نہ رہی

نہ یہ تھمی نہ یہ ٹھہری نہ یہ رکی نہ رہی

دل کے دو حصے جو کر ڈالے تھے حسن و عشق نے

ایک صحرا بن گیا اور ایک گلشن ہو گیا

نہ ملو کھل کے تو چوری کی ملاقات رہے

ہم بلائیں گے تمہیں رات گئے رات رہے

برسوں رہے ہیں آپ ہماری نگاہ میں

یہ کیا کہا کہ ہم تمہیں پہچانتے نہیں

دل جو دے کر کسی کافر کو پریشاں ہو جائے

عافیت اس کی ہے اس میں کہ مسلماں ہو جائے

آپ آئے بن پڑی میرے دل ناشاد کی

آپ بگڑے بن گئی میرے دل ناشاد پر

اے دیر و حرم والو تم دل کی طرف دیکھو

کعبے کا یہ کعبہ ہے بت خانے کا بت خانہ

ساقی جو دل سے چاہے تو آئے وہ زمانہ

ہر شخص ہو شرابی ہر گھر شراب خانہ

ہمارے دل سے کیا ارمان سب اک ساتھ نکلیں گے

کہ قیدی مختلف میعاد کے ہوتے ہیں زنداں میں

شرما کے بگڑ کے مسکرا کر

وہ چھپ رہے اک جھلک دکھا کر

موسم گل ابھی نہیں آیا

چل دیئے گھر میں ہم لگا کر آگ

دکھائے پانچ عالم اک پیام شوق نے مجھ کو

الجھنا روٹھنا لڑنا بگڑنا دور ہو جانا

اس کم سنی میں ہو انہیں میرا خیال کیا

وہ کے برس کے ہیں ابھی سن کیا ہے سال کیا

چاہئے تھی شمع اس تاریک گھر کے واسطے

خانۂ دل میں چراغ عشق روشن ہو گیا

کمبخت کبھی جی سے گزرنے نہیں دیتی

جینے کی تمنا مجھے مرنے نہیں دیتی

دل کو تم شوق سے لے جاؤ مگر یاد رہے

یہ نہ میرا نہ تمہارا نہ کسی کا ہوگا

طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہ

دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں

کہہ رہی ہے یہ تری تصویر بھی

میں کسی سے بولنے والی نہیں

مجھ کو خیال ابروئے خمدار ہو گیا

خنجر ترا گلے کا مرے ہار ہو گیا

کہیں نہ ان کی نظر سے نظر کسی کی لڑے

وہ اس لحاظ سے آنکھیں جھکائے بیٹھے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے