Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sakhi Lakhnvi's Photo'

سخی لکھنوی

1813 - 1876

سخی لکھنوی کے اشعار

1.1K
Favorite

باعتبار

جائے گی گلشن تلک اس گل کی آمد کی خبر

آئے گی بلبل مرے گھر میں مبارک باد کو

ہچکیاں آتی ہیں پر لیتے نہیں وہ میرا نام

دیکھنا ان کی فراموشی کو میری یاد کو

بات کرنے میں ہونٹ لڑتے ہیں

ایسے تکرار کا خدا حافظ

اجی پھینکو رقیب کا نامہ

نہ عبارت بھلی نہ اچھا خط

برگ گل آ میں تیرے بوسے لوں

تجھ میں ہے ڈھنگ یار کے لب کا

تیس دن یار اب نہ آئے گا

اس مہینے کا نام خالی ہے

دیکھو قلعی کھلے گی صاف اس کی

آئینہ ان کے منہ چڑھا ہے آج

رخ ہاتھ پہ رکھا نہ کرو وقت تکلم

ہر بات میں قرآن اٹھایا نہیں جاتا

نہ عاشق ہیں زمانے میں نہ معشوق

ادھر ہم رہ گئے ہیں اور ادھر آپ

زندگی تک مری ہنس لیجئے آپ

پھر مجھے روئیے گا میرے بعد

دفن ہم ہو چکے تو کہتے ہیں

اس گنہ گار کا خدا حافظ

رہتے کعبہ میں اکیلے کیا ہم

دل لگانے کو صنم بھی تو نہ تھے

میں تجھے پھر زمیں دکھاؤں گا

دیکھ مجھ سے نہ آسمان بگڑ

یوں ہی وعدہ کرو یقیں ہو جائے

کیوں قسم لوں قسم کے کیا معنی

وہ عاشق ہیں کہ مرنے پر ہمارے

کریں گے یاد ہم کو عمر بھر آپ

خال اور رخ سے کس کو دوں نسبت

ایسے تارے نہ ایسا پیارا چاند

دیکھیں کہتا ہے خدا حشر کے دن

تم کو کیا غیر کو کیا ہم کو کیا

خون عشاق ہے معانی میں

شوق سے پان کھائیے صاحب

سینے سے ہمارا دل نہ لے جاؤ

چھڑواتے ہو کیوں وطن کسی کا

رنگت اس رخ کی گل نے پائی ہے

اور پسینے کی بو گلاب میں ہے

ہم ان سے آج کا شکوہ کریں گے

اکھاڑیں گے وہ برسوں کی گڑی بات

بوسہ ہر وقت رخ کا لیتا ہے

کس قدر گیسوئے دوتا ہے شوخ

کہنا مجنوں سے کہ کل تیری طرف آؤں گا

ڈھونڈنے جاتا ہوں فرہاد کو کہسار میں آج

بہت خواب غفلت میں دن چڑھ گیا

اٹھو سونے والو پھر آئے گی رات

تم نہ آسان کو آساں سمجھو

ورنہ مشکل مری مشکل تو نہیں

اس طرف بزم میں ہم تھے وہ تھے

اس طرف شمع تھی پروانہ تھا

دل کلیجہ دماغ سینہ و چشم

ان کے رہنے کے ہیں مکان بہت

آنکھوں سے پائے یار لگانے کی ہے ہوس

حلقہ ہمارے چشم کا اس کی رکاب ہو

درد کو گردہ تڑپنے کو جگر

ہجر میں سب ہیں مگر دل تو نہیں

تھا حنا سے جو شوخ میرا خوں

بولے یہ لال لال ہے کچھ اور

سخیؔ بیٹھیے ہٹ کے کچھ اس کے در سے

بڑی بھیڑ ہوگی کچل جائیے گا

نہ چھوڑا ہجر میں بھی خانۂ تن

رگڑوائے گی کب تک ایڑیاں روح

تصویر چشم یار کا خواہاں ہے باغباں

ایجاد ہوگی نرگس بیمار کی جگہ

چرخ پر بدر جس کو کہتے ہیں

یار کا ساغر سفالی ہے

خدا کے پاس کیا جائیں گے زاہد

گنہگاروں سے جب یہ بار پائیں

کبھی پہنچے گا دل ان انگلیوں تک

نگینے کی طرح خاتم میں جڑ کے

شیخ جی بت کی برائی کیجے

اپنے اللہ سے بھرپائیے گا

نزع کے دم بھی انہیں ہچکی نہ آئے گی کبھی

یوں ہی گر بھولے رہیں گے وہ سخیؔ کی یاد کو

ہمہ تن ہو گئے ہیں آئینہ

خود نمائی سی خود نمائی ہے

قافلہ جاتا ہے ساغر کی طرف رندوں کا

ہے مگر قلقل مینا جرس جام شراب

کیوں حسینوں کی آنکھوں سے نہ لڑے

میری پتلی کی مردمی ہی تو ہے

پوجنا بت کا ہے یہ کیا مضمون

اور طواف حرم کے کیا معنی

لی زباں اس کی جو منہ میں ہو گیا ذوق نبات

انگلیاں چوسیں تو ذوق نیشکر پیدا ہوا

کعبہ میں سخت کلامی سن لی

بت کدہ میں نہ کبھی آئیے گا

مرے لاشہ کو کاندھا دے کے بولے

چلو تربت میں اب تم کو سلائیں

جیتیں گے نہ ہم سے بازیٔ عشق

اغیار کے پٹ پڑیں گے پانسے

کی خطابت کو گر خدا سمجھا

بندہ بھی آخر آدمی ہی تو ہے

جس کے گھر جاتے نہ تھے حضرت دل

واں لگے پھاند نے دیوار یہ کیا

نقد دل کا بڑا تقاضا ہے

گویا ان کی زمیں جوتے ہیں

ایک دو تین چار پانچ چھ سات

یوں ہی گن لیں گے کم کے کیا معنی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے