Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Taashshuq Lakhnavi's Photo'

تعشق لکھنوی

1824 - 1892

تعشق لکھنوی کے اشعار

2.4K
Favorite

باعتبار

میں باغ میں ہوں طالب دیدار کسی کا

گل پر ہے نظر دھیان میں رخسار کسی کا

ہم کس کو دکھاتے شب فرقت کی اداسی

سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے

وہ کھڑے کہتے ہیں میری لاش پر

ہم تو سنتے تھے کہ نیند آتی نہیں

جس طرف بیٹھتے تھے وصل میں آپ

اسی پہلو میں درد رہتا ہے

کبھی تو شہیدوں کی قبروں پہ آؤ

یہ سب گھر تمہارے بسائے ہوئے ہیں

پڑ گئی کیا نگہ مست ترے ساقی کی

لڑکھڑاتے ہوئے مے خوار چلے آتے ہیں

آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار

روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے

بہت مضر دل عاشق کو آہ ہوتی ہے

اسی ہوا سے یہ کشتی تباہ ہوتی ہے

مجھ سے لاکھوں خاک کے پتلے بنا سکتا ہے تو

میں کہاں سے ایک تیرا سا خدا پیدا کروں

ہر طرف حشر میں جھنکار ہے زنجیروں کی

ان کی زلفوں کے گرفتار چلے آتے ہیں

وہ انتہا کے ہیں نازک میں سخت جاں ہوں کمال

عجب طرح کی مصیبت پڑی ہے خنجر پر

مجھ سے کیا پوچھتے ہو داغ ہیں دل میں کتنے

تم کو ایام جدائی کا شمار آتا ہے

دیتے پھرتے تھے حسینوں کی گلی میں آواز

کبھی آئینہ فروش دل حیران ہم تھے

منتظر تیرے ہیں چشم خوں فشاں کھولے ہوئے

بیٹھے ہیں دل بیچنے والے دکاں کھولے ہوئے

بار خاطر ہی اگر ہے تو عنایت کیجے

آپ کو حسن مبارک ہو مرا دل مجھ کو

تمام عمر کمی کی کبھی نہ پانی نے

عجب کریم کی رحمت ہے دیدۂ تر پر

بڑھتے بڑھتے آتش رخسار لو دینے لگی

رفتہ رفتہ کان کے موتی شرارے ہو گئے

جلوں گا میں کہ دل اس بت کا غیر پر آیا

اڑے گی آگ کہ پتھر گرا ہے پتھر پر

اٹھتے جاتے ہیں بزم عالم سے

آنے والے تمہاری محفل کے

نجد سے جانب لیلیٰ جو ہوا آتی ہے

دل مجنوں کے دھڑکنے کی صدا آتی ہے

چراغ داغ میں دن سے جلائے بیٹھا ہوں

سنا ہے جو شب فرقت سیاہ ہوتی ہے

قافلے رات کو آتے تھے ادھر جان کے آگ

دشت غربت میں جدھر اے دل سوزاں ہم تھے

مجھے ہے فکر خط بھیجا ہے جب سے اس گل تر کو

ہزاروں بلبلیں روکیں گی رسی میں کبوتر کو

گیا شباب پر اتنا رہا تعلق عشق

دل و جگر میں تپک گاہ گاہ ہوتی ہے

وحشت دل یہ بڑھی چھوڑ دیے گھر سب نے

تم ہوئے خانہ نشیں ہو گئیں گلیاں آباد

صاف دیکھا ہے کہ غنچوں نے لہو تھوکا ہے

موسم گل میں الٰہی کوئی دلگیر نہ ہو

موج دریا سے بلا کی چاہئے کشتی مجھے

ہو جو بالکل نا موافق وہ ہوا پیدا کروں

شعلۂ حسن سے تھا دود دل اپنا اول

آگ دنیا میں نہ آئی تھی کہ سوزاں ہم تھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے