تعشق لکھنوی کے اشعار
میں باغ میں ہوں طالب دیدار کسی کا
گل پر ہے نظر دھیان میں رخسار کسی کا
ہم کس کو دکھاتے شب فرقت کی اداسی
سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے
وہ کھڑے کہتے ہیں میری لاش پر
ہم تو سنتے تھے کہ نیند آتی نہیں
جس طرف بیٹھتے تھے وصل میں آپ
اسی پہلو میں درد رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کبھی تو شہیدوں کی قبروں پہ آؤ
یہ سب گھر تمہارے بسائے ہوئے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پڑ گئی کیا نگہ مست ترے ساقی کی
لڑکھڑاتے ہوئے مے خوار چلے آتے ہیں
آمد آمد ہے خزاں کی جانے والی ہے بہار
روتے ہیں گل زار کے در باغباں کھولے ہوئے
بہت مضر دل عاشق کو آہ ہوتی ہے
اسی ہوا سے یہ کشتی تباہ ہوتی ہے
مجھ سے لاکھوں خاک کے پتلے بنا سکتا ہے تو
میں کہاں سے ایک تیرا سا خدا پیدا کروں
ہر طرف حشر میں جھنکار ہے زنجیروں کی
ان کی زلفوں کے گرفتار چلے آتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ انتہا کے ہیں نازک میں سخت جاں ہوں کمال
عجب طرح کی مصیبت پڑی ہے خنجر پر
مجھ سے کیا پوچھتے ہو داغ ہیں دل میں کتنے
تم کو ایام جدائی کا شمار آتا ہے
دیتے پھرتے تھے حسینوں کی گلی میں آواز
کبھی آئینہ فروش دل حیران ہم تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
منتظر تیرے ہیں چشم خوں فشاں کھولے ہوئے
بیٹھے ہیں دل بیچنے والے دکاں کھولے ہوئے
بار خاطر ہی اگر ہے تو عنایت کیجے
آپ کو حسن مبارک ہو مرا دل مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمام عمر کمی کی کبھی نہ پانی نے
عجب کریم کی رحمت ہے دیدۂ تر پر
بڑھتے بڑھتے آتش رخسار لو دینے لگی
رفتہ رفتہ کان کے موتی شرارے ہو گئے
جلوں گا میں کہ دل اس بت کا غیر پر آیا
اڑے گی آگ کہ پتھر گرا ہے پتھر پر
نجد سے جانب لیلیٰ جو ہوا آتی ہے
دل مجنوں کے دھڑکنے کی صدا آتی ہے
چراغ داغ میں دن سے جلائے بیٹھا ہوں
سنا ہے جو شب فرقت سیاہ ہوتی ہے
قافلے رات کو آتے تھے ادھر جان کے آگ
دشت غربت میں جدھر اے دل سوزاں ہم تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھے ہے فکر خط بھیجا ہے جب سے اس گل تر کو
ہزاروں بلبلیں روکیں گی رسی میں کبوتر کو
گیا شباب پر اتنا رہا تعلق عشق
دل و جگر میں تپک گاہ گاہ ہوتی ہے
وحشت دل یہ بڑھی چھوڑ دیے گھر سب نے
تم ہوئے خانہ نشیں ہو گئیں گلیاں آباد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
صاف دیکھا ہے کہ غنچوں نے لہو تھوکا ہے
موسم گل میں الٰہی کوئی دلگیر نہ ہو
موج دریا سے بلا کی چاہئے کشتی مجھے
ہو جو بالکل نا موافق وہ ہوا پیدا کروں
شعلۂ حسن سے تھا دود دل اپنا اول
آگ دنیا میں نہ آئی تھی کہ سوزاں ہم تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ