Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

وزیر علی صبا لکھنؤی

1793 - 1855 | لکھنؤ, انڈیا

وزیر علی صبا لکھنؤی کے اشعار

5.8K
Favorite

باعتبار

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

باقی رہے نہ فرق زمین آسمان میں

اپنا قدم اٹھا لیں اگر درمیاں سے ہم

بات بھی آپ کے آگے نہ زباں سے نکلی

لیجئے آئے تھے ہم سوچ کے کیا کیا دل میں

آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

کہتے ہیں میرے دوست مرا حال دیکھ کر

دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے عشق

نہ کریں آپ وفا ہم کو کیا

بے وفا آپ ہی کہلائیے گا

آدم سے باغ خلد چھٹا ہم سے کوئے یار

وہ ابتدائے رنج ہے یہ انتہائے رنج

قید مذہب واقعی اک روگ ہے

آدمی کو چاہئے آزاد ہو

اتنی تو دید عشق کی تاثیر دیکھیے

جس سمت دیکھیے تری تصویر دیکھیے

کلیجہ کانپتا ہے دیکھ کر اس سرد مہری کو

تمہارے گھر میں کیا آئے کہ ہم کشمیر میں آئے

میرے بغل میں رہ کے مجھی کو کیا ذلیل

نفرت سی ہو گئی دل خانہ خراب سے

تری تلاش میں مہ کی طرح میں پھرتا ہوں

کہاں تو رات کو اے آفتاب رہتا ہے

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو

کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو

کعبہ بنائیے کہ کلیسا بنائیے

دل سا مکاں حوالے کیا ہے جناب کے

ہیں وہ صوفی جو کبھی نالۂ ناقوس سنا

وجد کرنے لگے ہم دل کا عجب حال ہوا

ہوا دھوپ میں بھی نہ کم حسن یار

کنھیا بنا وہ جو سنولا گیا

روز و شب فرقت جاناں میں بسر کی ہم نے

تجھ سے کچھ کام نہ اے گردش دوراں نکلا

ساکن دیر ہوں اک بت کا ہوں بندہ بخدا

خود وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں مسلماں مجھ کو

نہ پڑھا یار نے احوال شکستہ میرا

خط کے پرزے کئے بازوئے کبوتر توڑا

کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر

تو کس طرف تھا دھیان ہمارا کدھر گیا

الفت کوچہ جاناں نے کیا خانہ خراب

برہمن دیر سے کعبے سے مسلماں نکلا

عاشق ہیں ہم کو حرف محبت سے کام ہے

ملا نکالتا پھرے مطلب کتاب سے

مے پی کے عید کیجیے گزرا مہ صیام

تسبیح رکھیے ساغر و مینا اٹھائیے

ہم رند پریشاں ہیں ماہ رمضاں ہے

چمکی ہوئی ان روزوں میں واعظ کی دکاں ہے

آپ کو غیر بہت دیکھتے ہیں

ایک دن دیکھیے پچھتائیے گا

تمہاری زلف نہ گرداب ناف تک پہنچی

ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا

پایا ہے اس قدر سخن سخت نے رواج

پنجابی بات کرتے ہیں پشتو زبان میں

مجنوں نہیں کہ ایک ہی لیلیٰ کے ہو رہیں

رہتا ہے اپنے ساتھ نیا اک نگار روز

خاک میں مجھ کو ملا کے وہ صنم کہتا ہے

اپنے اللہ سے جا کر مری فریاد کرو

دونوں چشموں سے مری اشک بہا کرتے ہیں

موجزن رہتا ہے دریا کے کنارے دریا

خود رفتگی ہے چشم حقیقت جو وا ہوئی

دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا

جب میں روتا ہوں تو اللہ رے ہنسنا ان کا

قہقہوں میں مرے نالوں کو اڑا دیتے ہیں

ہم بھی ضرور کہتے کسی کام کے لئے

فرصت نہ آسماں کو ملی اپنے کام سے

تو اپنے پاؤں کی مہندی چھڑا کے دے اے مہر

فلک کو چاہئے غازہ رخ قمر کے لئے

کیا بنایا ہے بتوں نے مجھ کو

نام رکھا ہے مسلماں میرا

دیکھیے آج وہ تشریف کہاں فرمائیں

ہم سے وعدہ ہے جدا غیر سے اقرار جدا

چار عنصر کے سب تماشے ہیں

واہ یہ چار باغ کس کا ہے

دشت جنوں میں آ گئیں آنکھیں جو ان کی یاد

بھاگا میں خاک ڈال کے چشم غزال میں

کدورت نہیں اپنی طبع رواں میں

بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا

یاد مژگاں میں مری آنکھ لگی جاتی ہے

لوگ سچ کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آتی ہے

فصل گل ہی زاہدوں کو غم ہی میکش شاد ہیں

مسجدیں سونی پڑی ہیں بھٹیاں آباد ہیں

چشم وا رہ گئی دیکھا جو طلسمات جہاں

آئنہ بن گئے ہم محو تماشا ہو کر

میرے اشعار سے مضمون رخ یار کھلا

بے احادیث نہیں مطلب قرآں نکلا

ساقیا اب کے بڑے زوروں پہ ہیں ہم مے پرست

چل کے واعظ کو سر منبر لتاڑا چاہئے

صاف قلقل سے صدا آتی ہے آمین آمین

اپنے ساقی کو جو ہم رند دعا دیتے ہیں

معدوم ہوئے جاتے ہیں ہم فکر کے مارے

مضموں کمر یار کا پیدا نہیں ہوتا

طائر عقل کو معذور کہا زاہد نے

پر پرواز میں تسبیح کا ڈورا باندھا

اٹھا دی قید مذہب دل سے ہم نے

قفس سے طائر‌ ادراک نکلا

جب اس بے مہر کو اے جذب دل کچھ جوش آتا ہے

مہ نو کی طرح کھولے ہوئے آغوش آتا ہے

اے صبا قلعۂ ہستی سے جو دم گھبرایا

بڑھ کے دو چار قدم موت کا آگا باندھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے