وزیر علی صبا لکھنؤی کے اشعار
ان کی مژہ ہے کعبۂ ابرو میں معتکف
کھینچا کبھی نہ تیر نے چلہ کمان میں
ہیں وہ صوفی جو کبھی نالۂ ناقوس سنا
وجد کرنے لگے ہم دل کا عجب حال ہوا
پایا ہے اس قدر سخن سخت نے رواج
پنجابی بات کرتے ہیں پشتو زبان میں
دیکھیے آج وہ تشریف کہاں فرمائیں
ہم سے وعدہ ہے جدا غیر سے اقرار جدا
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
دلوں میں گبر و مسلماں ذرا خیال کریں
خدا کے واسطے قصہ کا انفصال کریں
نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت
گئے حرم کو تو ہوگی بہت خراب گھٹا
اتنی تو دید عشق کی تاثیر دیکھیے
جس سمت دیکھیے تری تصویر دیکھیے
عاشق ہیں ہم کو حرف محبت سے کام ہے
ملا نکالتا پھرے مطلب کتاب سے
فصل گل ہی زاہدوں کو غم ہی میکش شاد ہیں
مسجدیں سونی پڑی ہیں بھٹیاں آباد ہیں
آدم سے باغ خلد چھٹا ہم سے کوئے یار
وہ ابتدائے رنج ہے یہ انتہائے رنج
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کدورت نہیں اپنی طبع رواں میں
بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا
یاد مژگاں میں مری آنکھ لگی جاتی ہے
لوگ سچ کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آتی ہے
باقی رہے نہ فرق زمین آسمان میں
اپنا قدم اٹھا لیں اگر درمیاں سے ہم
کیا بنایا ہے بتوں نے مجھ کو
نام رکھا ہے مسلماں میرا
اب تو صاحب کی ہوئی خاطر جمع
سن چکے حال پریشاں میرا
مجنوں نہیں کہ ایک ہی لیلیٰ کے ہو رہیں
رہتا ہے اپنے ساتھ نیا اک نگار روز
جب اس بے مہر کو اے جذب دل کچھ جوش آتا ہے
مہ نو کی طرح کھولے ہوئے آغوش آتا ہے
چار عنصر کے سب تماشے ہیں
واہ یہ چار باغ کس کا ہے
الفت کوچہ جاناں نے کیا خانہ خراب
برہمن دیر سے کعبے سے مسلماں نکلا
بوسۂ سبزۂ خط دے کے گنہ گار کیا
تو نے کانٹوں میں مجھے اے گل رعنا کھینچا
ساکن دیر ہوں اک بت کا ہوں بندہ بخدا
خود وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں مسلماں مجھ کو
دونوں چشموں سے مری اشک بہا کرتے ہیں
موجزن رہتا ہے دریا کے کنارے دریا
-
موضوع : گریہ و زاری
دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا
تری تلاش میں مہ کی طرح میں پھرتا ہوں
کہاں تو رات کو اے آفتاب رہتا ہے
جب میں روتا ہوں تو اللہ رے ہنسنا ان کا
قہقہوں میں مرے نالوں کو اڑا دیتے ہیں
چشم وا رہ گئی دیکھا جو طلسمات جہاں
آئنہ بن گئے ہم محو تماشا ہو کر
قید مذہب واقعی اک روگ ہے
آدمی کو چاہئے آزاد ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روز و شب فرقت جاناں میں بسر کی ہم نے
تجھ سے کچھ کام نہ اے گردش دوراں نکلا
سج دیا حیرت عشاق نے اس بت کا مکاں
قد آدم ہیں لگے آئنہ دیواروں میں
کہتے ہیں میرے دوست مرا حال دیکھ کر
دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے عشق
میرے بغل میں رہ کے مجھی کو کیا ذلیل
نفرت سی ہو گئی دل خانہ خراب سے
دشت جنوں میں آ گئیں آنکھیں جو ان کی یاد
بھاگا میں خاک ڈال کے چشم غزال میں
آپ کو غیر بہت دیکھتے ہیں
ایک دن دیکھیے پچھتائیے گا
ہوا دھوپ میں بھی نہ کم حسن یار
کنھیا بنا وہ جو سنولا گیا
طائر عقل کو معذور کہا زاہد نے
پر پرواز میں تسبیح کا ڈورا باندھا
خود رفتگی ہے چشم حقیقت جو وا ہوئی
دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا
معدوم ہوئے جاتے ہیں ہم فکر کے مارے
مضموں کمر یار کا پیدا نہیں ہوتا
مے پی کے عید کیجیے گزرا مہ صیام
تسبیح رکھیے ساغر و مینا اٹھائیے
میرے اشعار سے مضمون رخ یار کھلا
بے احادیث نہیں مطلب قرآں نکلا
ساقیا اب کے بڑے زوروں پہ ہیں ہم مے پرست
چل کے واعظ کو سر منبر لتاڑا چاہئے
کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر
تو کس طرف تھا دھیان ہمارا کدھر گیا
کلیجہ کانپتا ہے دیکھ کر اس سرد مہری کو
تمہارے گھر میں کیا آئے کہ ہم کشمیر میں آئے
تمہاری زلف نہ گرداب ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا
کعبہ بنائیے کہ کلیسا بنائیے
دل سا مکاں حوالے کیا ہے جناب کے
تو اپنے پاؤں کی مہندی چھڑا کے دے اے مہر
فلک کو چاہئے غازہ رخ قمر کے لئے
نہ پڑھا یار نے احوال شکستہ میرا
خط کے پرزے کئے بازوئے کبوتر توڑا
ہم بھی ضرور کہتے کسی کام کے لئے
فرصت نہ آسماں کو ملی اپنے کام سے
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ہم رند پریشاں ہیں ماہ رمضاں ہے
چمکی ہوئی ان روزوں میں واعظ کی دکاں ہے