Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

وزیر علی صبا لکھنؤی

1793 - 1855 | لکھنؤ, انڈیا

وزیر علی صبا لکھنؤی کے اشعار

6.2K
Favorite

باعتبار

ان کی مژہ ہے کعبۂ ابرو میں معتکف

کھینچا کبھی نہ تیر نے چلہ کمان میں

ہیں وہ صوفی جو کبھی نالۂ ناقوس سنا

وجد کرنے لگے ہم دل کا عجب حال ہوا

پایا ہے اس قدر سخن سخت نے رواج

پنجابی بات کرتے ہیں پشتو زبان میں

دیکھیے آج وہ تشریف کہاں فرمائیں

ہم سے وعدہ ہے جدا غیر سے اقرار جدا

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو

کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو

دلوں میں گبر و مسلماں ذرا خیال کریں

خدا کے واسطے قصہ کا انفصال کریں

نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت

گئے حرم کو تو ہوگی بہت خراب گھٹا

اتنی تو دید عشق کی تاثیر دیکھیے

جس سمت دیکھیے تری تصویر دیکھیے

عاشق ہیں ہم کو حرف محبت سے کام ہے

ملا نکالتا پھرے مطلب کتاب سے

فصل گل ہی زاہدوں کو غم ہی میکش شاد ہیں

مسجدیں سونی پڑی ہیں بھٹیاں آباد ہیں

آدم سے باغ خلد چھٹا ہم سے کوئے یار

وہ ابتدائے رنج ہے یہ انتہائے رنج

کدورت نہیں اپنی طبع رواں میں

بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا

یاد مژگاں میں مری آنکھ لگی جاتی ہے

لوگ سچ کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آتی ہے

باقی رہے نہ فرق زمین آسمان میں

اپنا قدم اٹھا لیں اگر درمیاں سے ہم

کیا بنایا ہے بتوں نے مجھ کو

نام رکھا ہے مسلماں میرا

اب تو صاحب کی ہوئی خاطر جمع

سن چکے حال پریشاں میرا

مجنوں نہیں کہ ایک ہی لیلیٰ کے ہو رہیں

رہتا ہے اپنے ساتھ نیا اک نگار روز

جب اس بے مہر کو اے جذب دل کچھ جوش آتا ہے

مہ نو کی طرح کھولے ہوئے آغوش آتا ہے

چار عنصر کے سب تماشے ہیں

واہ یہ چار باغ کس کا ہے

الفت کوچہ جاناں نے کیا خانہ خراب

برہمن دیر سے کعبے سے مسلماں نکلا

بوسۂ سبزۂ خط دے کے گنہ گار کیا

تو نے کانٹوں میں مجھے اے گل رعنا کھینچا

ساکن دیر ہوں اک بت کا ہوں بندہ بخدا

خود وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں مسلماں مجھ کو

دونوں چشموں سے مری اشک بہا کرتے ہیں

موجزن رہتا ہے دریا کے کنارے دریا

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

تری تلاش میں مہ کی طرح میں پھرتا ہوں

کہاں تو رات کو اے آفتاب رہتا ہے

جب میں روتا ہوں تو اللہ رے ہنسنا ان کا

قہقہوں میں مرے نالوں کو اڑا دیتے ہیں

چشم وا رہ گئی دیکھا جو طلسمات جہاں

آئنہ بن گئے ہم محو تماشا ہو کر

قید مذہب واقعی اک روگ ہے

آدمی کو چاہئے آزاد ہو

روز و شب فرقت جاناں میں بسر کی ہم نے

تجھ سے کچھ کام نہ اے گردش دوراں نکلا

سج دیا حیرت عشاق نے اس بت کا مکاں

قد آدم ہیں لگے آئنہ دیواروں میں

کہتے ہیں میرے دوست مرا حال دیکھ کر

دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے عشق

میرے بغل میں رہ کے مجھی کو کیا ذلیل

نفرت سی ہو گئی دل خانہ خراب سے

دشت جنوں میں آ گئیں آنکھیں جو ان کی یاد

بھاگا میں خاک ڈال کے چشم غزال میں

آپ کو غیر بہت دیکھتے ہیں

ایک دن دیکھیے پچھتائیے گا

ہوا دھوپ میں بھی نہ کم حسن یار

کنھیا بنا وہ جو سنولا گیا

طائر عقل کو معذور کہا زاہد نے

پر پرواز میں تسبیح کا ڈورا باندھا

خود رفتگی ہے چشم حقیقت جو وا ہوئی

دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا

معدوم ہوئے جاتے ہیں ہم فکر کے مارے

مضموں کمر یار کا پیدا نہیں ہوتا

مے پی کے عید کیجیے گزرا مہ صیام

تسبیح رکھیے ساغر و مینا اٹھائیے

میرے اشعار سے مضمون رخ یار کھلا

بے احادیث نہیں مطلب قرآں نکلا

ساقیا اب کے بڑے زوروں پہ ہیں ہم مے پرست

چل کے واعظ کو سر منبر لتاڑا چاہئے

کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر

تو کس طرف تھا دھیان ہمارا کدھر گیا

کلیجہ کانپتا ہے دیکھ کر اس سرد مہری کو

تمہارے گھر میں کیا آئے کہ ہم کشمیر میں آئے

تمہاری زلف نہ گرداب ناف تک پہنچی

ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا

کعبہ بنائیے کہ کلیسا بنائیے

دل سا مکاں حوالے کیا ہے جناب کے

تو اپنے پاؤں کی مہندی چھڑا کے دے اے مہر

فلک کو چاہئے غازہ رخ قمر کے لئے

نہ پڑھا یار نے احوال شکستہ میرا

خط کے پرزے کئے بازوئے کبوتر توڑا

ہم بھی ضرور کہتے کسی کام کے لئے

فرصت نہ آسماں کو ملی اپنے کام سے

آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

ہم رند پریشاں ہیں ماہ رمضاں ہے

چمکی ہوئی ان روزوں میں واعظ کی دکاں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے