ضیا فاروقی کے اشعار
مت پوچھیے کیا جیتنے نکلا تھا میں گھر سے
یہ دیکھیے کیا ہار کے لوٹا ہوں سفر سے
یہ سفر یہ ڈوبتے سورج کا منظر اور میں
جانے کب ہو پائیں گے باہم مرا گھر اور میں
بدن کی قید سے چھوٹا تو لوگ پہچانے
تمام عمر کسی کو مرا پتہ نہ ملا
لہو سے جن کے ہے روشن یہ خانقاہ جنوں
ہمارے سر پہ ہے سایہ انہیں بزرگوں کا
غم حیات کو یوں خوشگوار کر لیا ہے
کہ ہم نے حال کو ماضی شمار کر لیا ہے
شعور تشنگی اک روز میں پختہ نہیں ہوتا
مرے ہونٹوں نے صدیوں کربلا کی خاک چومی ہے
پہلے تھا بہت فاصلہ بازار سے گھر کا
اب ایک ہی کمرے میں ہے بازار بھی گھر بھی
کل رات بھی اک چہرہ ہم راہ مرے جاگا
کل رات بھی رہ رہ کر دیوار لگیں آنکھیں
کل رات بھی تھا چودھویں کا چاند فلک پر
کل رات بھی اک قافلہ نکلا تھا کھنڈر سے
میری جھولی میں مروت کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سو اسے بھی یار لوگوں نے مرے لوٹا بہت
اب کہاں بستی میں وہ خوبان وحشت آشنا
مانگ کھا لیتا ہوں اک ساز شکستہ کے طفیل
کون ہے جو اتنے سناٹے میں ہے محو سفر
دشت شب میں یہ غبار ماہ و انجم کس لئے
آنکھیں ہیں کہ اب تک اسی چوکھٹ پہ دھری ہیں
دیتا ہوں زمانے کو مگر اپنا پتہ اور
زندگی کے اس سفر نے اور کیا مجھ کو دیا
ایک ٹوٹا آئنہ دو چار پتھر اور میں
کون جانے آج بھی کرتے ہیں کس کا انتظار
یہ شکستہ بام و در روزن کبوتر اور میں
کیا خبر تھی کہ تماشے کو ہنر کرتے ہوئے
عمر کٹ جائے گی بازار کو گھر کرتے ہوئے