ضیا ضمیر کے اشعار
دشمن جاں ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے
ایسا اس شہر میں اک شخص ہمارا بھی ہے
اس کو نئے سفر میں نئے ہم سفر کے ساتھ
دل خوش ہوا ہے کیوں یہ ضیا دیکھتے ہوئے
مسئلہ تھا تو بس انا کا تھا
فاصلے درمیاں کے تھے ہی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ ظلم و ستم سہنے کی عادت بھی ہے ہم کو
کچھ یہ ہے کہ دربار میں سنوائی بھی کم ہے
-
موضوع : نا انصافی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم نے جو کتابوں کے حوالے کیے جاناں
وہ پھول تو بالوں میں سجانے کے لئے تھے
ملک تو ملک گھروں پر بھی ہے قبضہ اس کا
اب تو گھر بھی نہیں چلتے ہیں سیاست کے بغیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غضب تو یہ ہے وہ ایسا کہہ کے خوشی کا اظہار کر رہے تھے
کہ ہم نے دستاریں بیچ دی ہیں سروں کو لیکن بچا لیا ہے
ہم تو تیری کہانی لکھ آئے
تو نے لکھا ہے امتحان میں کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زندگی روک کے اکثر یہی کہتی ہے مجھے
تجھ کو جانا تھا کدھر اور کدھر آ گیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں نے ہنس کر ڈانٹ دیا تھا پیار کے پہلے شبدوں پر
اس نے پھر کوشش ہی نہیں کی وہ خوددار بلا کی تھی
اس سے کہنا کہ برا خواب تھا اب یاد نہیں
میرے بارے میں جو پوچھے کبھی دنیا تجھ سے
کوئی آساں ہے بھلا رشتے کو قائم رکھنا
گرتی دیوار ہے ہم جس کو سنبھالے ہوئے ہیں
نیند کا اس کو نشہ ہم کو جگانے کی ہوس
خواب میں آتے ہوئے نیند چراتے ہوئے ہم
اس موڑ پہ رشتہ ہے ہمارا کہ اگر ہم
بیٹھیں گے کبھی ساتھ تو تنہائی بنے گی
عشق کے ماروں کو آداب کہاں آتے ہیں
تیرے کوچے میں چلے آئے اجازت کے بغیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خشک آنکھیں لئے ہنستا ہوا دیکھو جس کو
اس کو صحرا نہیں کہہ دینا سمندر کہنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پتھر مار کے چوراہے پر اک عورت کو مار دیا
سب نے مل کر پھر یہ سوچا اس نے غلطی کیا کی تھی
اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں
روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیوں بھلا کچے مکانوں کا تمہیں آیا خیال
تم تو دریا تھے تمہیں تیز گزر جانا تھا
ہنسی میں ٹال دے پھر سے ہماری ہر خواہش
پھر ایک بار تھپک دے ہمارا گال ذرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بہت اچھا ہے کچھ چیزیں نئی آئی ہیں گھر میں
مگر دیکھو کئی چیزیں پرانی پڑ رہی ہیں
بد دعا اپنے لئے کی تو بہت تھی میں نے
ہاں مگر راہ میں حائل جو دعا تھی تیری
ہونٹوں سے اس درد کی خوشبو آ کر جسم میں پھیل گئی
کتنا درد اکٹھا تھا اس ٹھنڈی سی پیشانی میں
آپ تو آئیں گے ہی خاص تماشائی جو ہیں
دار پے ہم جو کریں گے وہ غضب دیکھئے گا
مرتے مرتے ہم کو اک بے چینی سی تھی
ایک پرانا دشمن تھا جو یاد آیا تھا
داناؤں نے کی دانائی موند لیں آنکھیں
چوراہے پر قتل ہوا پاگل نے دیکھا
یہ عشق چیز عجب ہے کہ اس کو کیا کہئے
وہیں پہ تھوڑا سا کم ہے جہاں زیادہ ہے
ساتھ ساحل پہ گزرتے ہوئے دیکھی تھی کبھی
یاد ہے اب بھی سمندر میں اترتی ہوئی شام
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں
دیکھیے روح سے کب داغ پرانے جائیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی کی آنکھوں میں جل بجھے ہیں کسی کا چہرہ لگا لیا ہے
یہ مصلحت ہے یا بزدلی ہے کہ ہم نے خود کو چھپا لیا ہے
مختصر کیجئے کہانی کو
آپ تو دے رہے ہیں طول ہمیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لہر خود پر ہے پشیمان کہ اس کی زد میں
ننھے ہاتھوں سے بنا ریت کا گھر آ گیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھ سے کہا تھا خوشبوئیں اس کے بدن کی لائیو
میرا یہ کام آج تک تو نے سبا نہیں کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
درد کے سارے ہی قصوں کی یاد دہانی کر لینا
ہجر کی رات بہت لمبی ہے ایک کہانی کم نہ پڑے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
محفل میرے دم سے محفل پھر بھی مجھ میں
ایک بھیانک تنہائی بھی پوشیدہ ہے
میں نہیں تھا تو یہاں واقعی ویرانہ تھا
میرے آنے سے یہ ویرانہ کہاں کھو گیا ہے
ہجر کی رات وہ خط بھی جلائے تو کیسے
اس کے گھر میں کوئی آتش دان نہیں
کیسی تعبیر کی حسرت کہ ضیاؔ برسوں سے
نامراد آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں خواب کوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ