Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ضیا ضمیر کے اشعار

4.8K
Favorite

باعتبار

دشمن جاں ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے

ایسا اس شہر میں اک شخص ہمارا بھی ہے

اس کو نئے سفر میں نئے ہم سفر کے ساتھ

دل خوش ہوا ہے کیوں یہ ضیا دیکھتے ہوئے

مسئلہ تھا تو بس انا کا تھا

فاصلے درمیاں کے تھے ہی نہیں

کچھ ظلم و ستم سہنے کی عادت بھی ہے ہم کو

کچھ یہ ہے کہ دربار میں سنوائی بھی کم ہے

تم نے جو کتابوں کے حوالے کیے جاناں

وہ پھول تو بالوں میں سجانے کے لئے تھے

ملک تو ملک گھروں پر بھی ہے قبضہ اس کا

اب تو گھر بھی نہیں چلتے ہیں سیاست کے بغیر

غضب تو یہ ہے وہ ایسا کہہ کے خوشی کا اظہار کر رہے تھے

کہ ہم نے دستاریں بیچ دی ہیں سروں کو لیکن بچا لیا ہے

ہم تو تیری کہانی لکھ آئے

تو نے لکھا ہے امتحان میں کیا

زندگی سے خوشی کی ہے امید

پر یہ امید بھی ذرا سی ہے

زندگی روک کے اکثر یہی کہتی ہے مجھے

تجھ کو جانا تھا کدھر اور کدھر آ گیا ہے

آج یہ شام بھیگتی کیوں ہے

تم کہیں چھپ کے رو رہی ہو کیا

میں نے ہنس کر ڈانٹ دیا تھا پیار کے پہلے شبدوں پر

اس نے پھر کوشش ہی نہیں کی وہ خوددار بلا کی تھی

اس سے کہنا کہ برا خواب تھا اب یاد نہیں

میرے بارے میں جو پوچھے کبھی دنیا تجھ سے

کوئی آساں ہے بھلا رشتے کو قائم رکھنا

گرتی دیوار ہے ہم جس کو سنبھالے ہوئے ہیں

نیند کا اس کو نشہ ہم کو جگانے کی ہوس

خواب میں آتے ہوئے نیند چراتے ہوئے ہم

اس موڑ پہ رشتہ ہے ہمارا کہ اگر ہم

بیٹھیں گے کبھی ساتھ تو تنہائی بنے گی

عشق کے ماروں کو آداب کہاں آتے ہیں

تیرے کوچے میں چلے آئے اجازت کے بغیر

خشک آنکھیں لئے ہنستا ہوا دیکھو جس کو

اس کو صحرا نہیں کہہ دینا سمندر کہنا

پتھر مار کے چوراہے پر اک عورت کو مار دیا

سب نے مل کر پھر یہ سوچا اس نے غلطی کیا کی تھی

اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں

روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں

ہم کو اتنا گرا پڑا نہ سمجھ

اے زمانے کسی کا پیار ہیں ہم

کیوں بھلا کچے مکانوں کا تمہیں آیا خیال

تم تو دریا تھے تمہیں تیز گزر جانا تھا

کسی بچے سے پنجرا کھل گیا ہے

پرندوں کی رہائی ہو رہی ہے

ہنسی میں ٹال دے پھر سے ہماری ہر خواہش

پھر ایک بار تھپک دے ہمارا گال ذرا

بہت اچھا ہے کچھ چیزیں نئی آئی ہیں گھر میں

مگر دیکھو کئی چیزیں پرانی پڑ رہی ہیں

بد دعا اپنے لئے کی تو بہت تھی میں نے

ہاں مگر راہ میں حائل جو دعا تھی تیری

ہونٹوں سے اس درد کی خوشبو آ کر جسم میں پھیل گئی

کتنا درد اکٹھا تھا اس ٹھنڈی سی پیشانی میں

آپ تو آئیں گے ہی خاص تماشائی جو ہیں

دار پے ہم جو کریں گے وہ غضب دیکھئے گا

مرتے مرتے ہم کو اک بے چینی سی تھی

ایک پرانا دشمن تھا جو یاد آیا تھا

داناؤں نے کی دانائی موند لیں آنکھیں

چوراہے پر قتل ہوا پاگل نے دیکھا

یہ عشق چیز عجب ہے کہ اس کو کیا کہئے

وہیں پہ تھوڑا سا کم ہے جہاں زیادہ ہے

ساتھ ساحل پہ گزرتے ہوئے دیکھی تھی کبھی

یاد ہے اب بھی سمندر میں اترتی ہوئی شام

درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں

دیکھیے روح سے کب داغ پرانے جائیں

کسی کی آنکھوں میں جل بجھے ہیں کسی کا چہرہ لگا لیا ہے

یہ مصلحت ہے یا بزدلی ہے کہ ہم نے خود کو چھپا لیا ہے

مختصر کیجئے کہانی کو

آپ تو دے رہے ہیں طول ہمیں

لہر خود پر ہے پشیمان کہ اس کی زد میں

ننھے ہاتھوں سے بنا ریت کا گھر آ گیا ہے

تجھ سے کہا تھا خوشبوئیں اس کے بدن کی لائیو

میرا یہ کام آج تک تو نے سبا نہیں کیا

درد کے سارے ہی قصوں کی یاد دہانی کر لینا

ہجر کی رات بہت لمبی ہے ایک کہانی کم نہ پڑے

محفل میرے دم سے محفل پھر بھی مجھ میں

ایک بھیانک تنہائی بھی پوشیدہ ہے

میں نہیں تھا تو یہاں واقعی ویرانہ تھا

میرے آنے سے یہ ویرانہ کہاں کھو گیا ہے

ہجر کی رات وہ خط بھی جلائے تو کیسے

اس کے گھر میں کوئی آتش دان نہیں

کیسی تعبیر کی حسرت کہ ضیاؔ برسوں سے

نامراد آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں خواب کوئی

Recitation

بولیے