Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zubair Rizvi's Photo'

زبیر رضوی

1935 - 2016 | دلی, انڈیا

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ اپنے ادبی رسالے ’ذہن جدید‘ کے لئے مشہور

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ اپنے ادبی رسالے ’ذہن جدید‘ کے لئے مشہور

زبیر رضوی کے اشعار

5.1K
Favorite

باعتبار

تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا

مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا

یہ لمحہ لمحہ تکلف کے ٹوٹتے رشتے

نہ اتنے پاس مرے آ کہ تو پرانا لگے

پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے

ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا

شام کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی یادیں زبیرؔ

غم کی محرابوں کے دھندلے آئینے چمکا گئیں

عورتوں کی آنکھوں پر کالے کالے چشمے تھے سب کی سب برہنہ تھیں

زاہدوں نے جب دیکھا ساحلوں کا یہ منظر لکھ دیا گناہوں میں

کیوں متاع دل کے لٹ جانے کا کوئی غم کرے

شہر دلی میں تو ایسے واقعے ہوتے رہے

دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں

کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو

ادھر ادھر سے مقابل کو یوں نہ گھائل کر

وہ سنگ پھینک کہ بے ساختہ نشانہ لگے

کچی دیواروں کو پانی کی لہر کاٹ گئی

پہلی بارش ہی نے برسات کی ڈھایا ہے مجھے

اپنی ذات کے سارے خفیہ رستے اس پر کھول دیے

جانے کس عالم میں اس نے حال ہمارا پوچھا تھا

نظر نہ آئے تو سو وہم دل میں آتے ہیں

وہ ایک شخص جو اکثر دکھائی دیتا ہے

جو نہ اک بار بھی چلتے ہوئے مڑ کے دیکھیں

ایسی مغرور تمناؤں کا پیچھا نہ کرو

زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی

ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں

کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے

تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں

میں اپنی داستاں کو آخر شب تک تو لے آیا

تم اس کا خوب صورت سا کوئی انجام لکھ دینا

سرخیاں اخبار کی گلیوں میں غل کرتی رہیں

لوگ اپنے بند کمروں میں پڑے سوتے رہے

تم جہاں اپنی مسافت کے نشاں چھوڑ گئے

وہ گزر گاہ مری ذات کا ویرانہ تھا

جاتے موسم نے جنہیں چھوڑ دیا ہے تنہا

مجھ میں ان ٹوٹتے پتوں کی جھلک ہے کتنی

اپنی پہچان کے سب رنگ مٹا دو نہ کہیں

خود کو اتنا غم جاناں سے شناسا نہ کرو

وہ جس کو دور سے دیکھا تھا اجنبی کی طرح

کچھ اس ادا سے ملا ہے کہ دوستانہ لگے

جلا ہے دل یا کوئی گھر یہ دیکھنا لوگو

ہوائیں پھرتی ہیں چاروں طرف دھواں لے کر

عجیب لوگ تھے خاموش رہ کے جیتے تھے

دلوں میں حرمت سنگ صدا کے ہوتے ہوئے

گلابوں کے ہونٹوں پہ لب رکھ رہا ہوں

اسے دیر تک سوچنا چاہتا ہوں

کہاں پہ ٹوٹا تھا ربط کلام یاد نہیں

حیات دور تلک ہم سے ہم کلام آئی

ہم نے پائی ہے ان اشعار پہ بھی داد زبیرؔ

جن میں اس شوخ کی تعریف کے پہلو بھی نہیں

دور تک کوئی نہ آیا ان رتوں کو چھوڑنے

بادلوں کو جو دھنک کی چوڑیاں پہنا گئیں

غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا

ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا

نئے گھروں میں نہ روزن تھے اور نہ محرابیں

پرندے لوٹ گئے اپنے آشیاں لے کر

بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں

جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو

ہائے یہ اپنی سادہ مزاجی ایٹم کے اس دور میں بھی

اگلے وقتوں کی سی شرافت ڈھونڈ رہی ہے شہروں میں

سخن کے کچھ تو گہر میں بھی نذر کرتا چلوں

عجب نہیں کہ کریں یاد ماہ و سال مجھے

وہ جس کو دیکھنے اک بھیڑ امڈی تھی سر مقتل

اسی کی دید کو ہم بھی ستون دار تک آئے

Recitation

بولیے