Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aleena Itrat's Photo'

مشاعروں میں مقبول نسائی لب و لہجے کی معروف شاعرہ

مشاعروں میں مقبول نسائی لب و لہجے کی معروف شاعرہ

علینا عترت کے اشعار

9.2K
Favorite

باعتبار

شدید دھوپ میں سارے درخت سوکھ گئے

بس اک دعا کا شجر تھا جو بے ثمر نہ ہوا

اداسی شام تنہائی کسک یادوں کی بے چینی

مجھے سب سونپ کر سورج اتر جاتا ہے پانی میں

کوئی آواز نہ آہٹ نہ کوئی ہلچل ہے

ایسی خاموشی سے گزرے تو گزر جائیں گے

کوئی ملا ہی نہیں جس سے حال دل کہتے

ملا تو رہ گئے لفظوں کے انتخاب میں ہم

اپنی مٹھی میں چھپا کر کسی جگنو کی طرح

ہم ترے نام کو چپکے سے پڑھا کرتے ہیں

ہجر کی رات اور پورا چاند

کس قدر ہے یہ اہتمام غلط

زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے

اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے

عشق میں فکر تو دیوانہ بنا دیتی ہے

پیار کو عقل نہیں دل کی پناہوں میں رکھو

ٹھیک ہے جاؤ تعلق نہ رکھیں گے ہم بھی

تم بھی وعدہ کرو اب یاد نہیں آؤ گے

جب بھی فرصت ملی ہنگامۂ دنیا سے مجھے

میری تنہائی کو بس تیرا پتہ یاد آیا

بعد مدت مجھے نیند آئی بڑے چین کی نیند

خاک جب اوڑھ لی جب خاک بچھا لی میں نے

ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا

ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے

ہر ایک سجدے میں دل کو ترا خیال آیا

یہ اک گناہ عبادت میں بار بار ہوا

جن کے مضبوط ارادے بنے پہچان ان کی

منزلیں آپ ہی ہو جاتی ہیں آسان ان کی

تجھ کو آواز دوں اور دور تلک تو نہ ملے

ایسے سناٹوں سے اکثر مجھے ڈر لگتا ہے

ہم ہوا سے بچا رہے تھے جنہیں

ان چراغوں سے جل گئے شاید

خواہشیں خواب دکھاتی ہیں ترے ملنے کا

خواب سے کہہ دے کہ تعبیر کی صورت آئے

مرے وجود میں شامل تھا وہ ہوا کی طرح

سو ہر طرف تھا مرے بس مری نظر میں نہ تھا

لو ہمارا جواب لے جاؤ

یہ مہکتا گلاب لے جاؤ

بن آواز پکاریں ہر دم نام ترا

شاید ہم بھی پاگل ہونے والے ہیں

بند رہتے ہیں جو الفاظ کتابوں میں صدا

گردش وقت مٹا دیتی ہے پہچان ان کی

شدید دھوپ میں سارے درخت سوکھ گئے

بس اک دعا کا شجر تھا جو بے ثمر نہ ہوا

دل کے گلشن میں ترے پیار کی خوشبو پا کر

رنگ رخسار پہ پھولوں سے کھلا کرتے ہیں

جانے کب کیسے گرفتار محبت ہوئے ہم

جانے کب ڈھل گئے اقرار میں انکار کے رنگ

تیری چاہت ہے خواب پاکیزہ

اک عبادت جو با وضو ہوگی

پھر زمیں کھینچ رہی ہے مجھے اپنی جانب

میں رکوں کیسے کے پرواز ابھی باقی ہے

کسی کے واسطے تصویر انتظار تھے ہم

وہ آ گیا پہ کہاں ختم انتظار ہوا

عجب سی کشمکش تمام عمر ساتھ ساتھ تھی

رکھا جو روح کا بھرم تو جسم میرا مر گیا

گرمئ عشق کھلا دیتی ہے گالوں پہ گلاب

یاد آتے ہیں جو لمحات گئی راتوں کے

موسم گل پر خزاں کا زور چل جاتا ہے کیوں

ہر حسیں منظر بہت جلدی بدل جاتا ہے کیوں

گہرے سمندروں میں اترنے کی لے کے آس

بیٹھے ہوئے ہے ایک کنارے ہمارے خواب

بندشوں کو توڑنے کی کوششیں کرتی ہوئی

سر پٹکتی لہر تیری عاجزی اچھی لگی

وہ اک چراغ جو جلتا ہے روشنی کے لیے

اسی کے زیر تحفظ ہے تیرگی کا وجود

اب بھی اکثر شب تنہائی میں کچھ تحریریں

چاند کے عکس سے ہو جاتی ہیں روشن روشن

عیاں تھے جذبۂ دل اور بیاں تھے سارے خیال

کوئی بھی پردہ نہ تھا جب کے تھے حجاب میں ہم

جھوٹا سماج رسم و روایات سرحدیں

اب بھی ہیں راہ عشق میں دیوار کی طرح

اندھیری شب کا یہ خواب منظر مجھے اجالوں سے بھر رہا ہے

تو رات اتنی طویل کر دے کہ تا قیامت سحر نہ آئے

ذات میں جس کی ہو ٹھہراؤ زمیں کی مانند

فکر میں اس کی سمندر کی سی وسعت ہوگی

ڈھلی جو شام تو مجھ میں سمٹ گیا جیسے

قرار پانے سمندر میں آفتاب اترے

آج پرواز خیالوں کی جدا سی پائی

آج پھر بھولی ہوئی یاد کسی کی آئی

کوزہ گر نے جب میری مٹی سے کی تخلیق نو

ہو گئے خود جذب مجھ میں آگ اور پانی ہوا

آج جب چاندنی اتری تھی مرے آنگن میں

چاند کس لمحہ ہوا مجھ سے خفا یاد آیا

حسن و جمال و زیست کی آرائشیں فضول

عشق و جنوں کی آگ جو دل میں جواں نہ ہو

کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتی ہے اکثر روشنی

جوں چمک اٹھتی ہے کوئی برق تلواروں کے بیچ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے