aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "बरा-ए-नाम"
مکتبہ ناز برن، جامعہ نگر، نئی دہلی
ناشر
برائے نام و نسب گو نہیں ہنر میرابنا ہوا ہے مگر مرحلہ سفر میرا
برائے نام و نشاں رہ گئے کنارے مرےبہاؤ میں جو روانی تھی وہ روانی کہاں
امریکہ ایسا دیس ہے یاران تیز گامجذبات تو بہت ہیں محبت برائے نام
مکان کی چھت گری ہوئی تھی۔ دروازہ برائے نام تھا اور گرے ہوئے مکان کے ملبہ کو ایک طرف کر کے بوسیدہ ساٹاٹ بچھائے، ایک ناتواں بڑھیا اس پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ اس کا جسم سوکھ کر کانٹا ہو چکا تھا۔ وہ شخص لبادہ پوش کو پھر اسی مکان کے پاس واپس لے آیا، جس کے باہر وہ لیٹا ہوا تھا، اس کا دروازہ کھول کر وہ اسے اندر لے گیا۔
کشتی ،ساحل ، سمندر ، ناخدا ، تند موجیں اور اس طرح کی دوسری لفظیات کو شاعری میں زندگی کی وسیع تر صورتوں کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے ۔ کشتی دریا کی طغیانی اور موجوں کی شدید مار سے بچ نکلنے اور ساحل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کشتی کی اس صفت کو بنیاد بنا کر بہت سے مضامین پیدا کئے گئے ہیں ۔ کشتی کے حوالے سے اور بھی کئی دلچسپ جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
مطلع انوار
برق دہلوی
نظم
خون کی دھار بہہ نکلی۔ درد کی لہر سی اٹھی۔ میں نے انگلی پر ٹیشو پیپر لپیٹ دیا اور وقت ضائع کیے بغیر غسل خانے کی کھڑکی کھول دی۔اندھیروں کو چیر کر آتا ہوا سرد ہوا کا ایک افسردہ جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔ نہ معلوم کب اندھیرا ہو چکا تھا۔ سارے طیور آشیانوں میں جا چھپے تھے۔ نیلے پنکھوں اور پیلی چونچ والی مینا بھی غائب تھی۔ انگلی کی ٹیس دل میں سے ہوتی ہوئی روح میں سما سی گئی۔ تھکی ہوئی نظر میں نے آسمان کی طرف اٹھائی۔
جھک گیا سر عرض مطلب پر برائے اختصارہم نے چاہا تھا کہ افسانہ در افسانہ کہیں
تو برائے فصل کردن آمدیجنگلات والوں کی پسند ملاحظہ ہو،
کتوں کی ایک پوری فوج رکھتا، شام کو کلب میں جاکر دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتا، سینما دیکھتا اور بچوں کو ساتھ لے کر انہیں کار میں سیر کرواتا۔ اس کے بچے رنگ دار قمیص اور جینز پہن کر گردن اکڑا کر، چھوٹی سی چھاتی پھلا کر، پتلی سی کمر مٹکا کر، کالج والے بس سٹاپوں، اعلٰی ہوٹلوں اور ناچ گھروں کے چکر لگاتے۔ وہ رات کو ایک بجے سوتے اور صبح منہ اندھیرے گیارہ بجے ...
راجدہ نے کہا تھا میرے متعلق افسانہ مت لکھنا۔ میں بدنام ہو جاؤں گی۔ اس بات کو آج تیسرا سال ہے اور میں نے راجدہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا اور نہ ہی کبھی لکھوں گا۔ اگرچہ وہ زمانہ جو میں نے اس کی محبت میں بسر کیا، میری زندگی کا سنہری زمانہ تھا اور اس کا خیال مجھے ایک ایسے باغ کی یاد دلاتا ہے جہاں سدا بہار درختوں کی پرسکون چھاؤں میں سچے گلاب کے پھولوں ...
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیںتم انشاؔ جی کا نام نہ لو کیا انشاؔ جی سودائی ہیں
جسم کے خول میں اک شہر انا رکھا ہےنام جیون کا تبھی ہم نے سزا رکھا ہے
کمر باندھے ہوئے۔۔۔یہ غزل ہمیں ہمیشہ سے پسند رہی ہے۔ لہٰذا ہم نے ایڈیٹر صاحبہ سے کہا کہ کسی کا دل توڑنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی کو ہمارا یہی شعر پسند ہے تو خیر چھاپ دیجیے۔ دوسرا شعر بھی اسی غزل کا تھا۔
آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔ ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے ب...
بادۂ احمر سے خالی جام ہےدل تو ہے لیکن برائے نام ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books