aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "khapaataa"
حیدر علی آتش
1778 - 1847
شاعر
صبا اکبرآبادی
1908 - 1991
خواجہ جاوید اختر
1964 - 2013
بیاں احسن اللہ خان
1727 - 1798
اثر صہبائی
1901 - 1963
خواجہ شوق
born.1925
عظیم خواجہ
born.1969
خواجہ ریاض الدین عطش
1925 - 2001
خواجہ منظر حسن منظر
مصنف
خواجہ محمد معصوم سرہندی
1598 - 1668
غلام قدیر خواجہ
خزانہ پبلی کیشنز، کراچی
ناشر
رام پرشاد کھٹانہ
خواجہ الطاف علی
خواجہ محمد ضیاءاللہ
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوںمیں کہاں اور یہ وبال کہاں
ہزار جان کھپاتا رہوں مگر پھر بھیکمی سی کچھ مرے طرز بیاں میں رہتی ہے
کسان تو ہی ہمیں پیٹ بھر کھلاتا ہےہمارے واسطے خود جان کو کھپاتا ہے
گھاس چنا بس اس کی غذا ہےچبا چبا کر یہ کھاتا ہے
خفا ہونا اور ایک دوسرے سے ناراض ہونا زندگی میں ایک عام سا عمل ہے لیکن شاعری میں خفگی کی جتنی صورتیں ہیں وہ عاشق اور معشوق کے درمیان کی ہیں ۔ شاعری میں خفا ہونے ، ناراض ہونے اور پھر راضی ہوجانے کا جو ایک دلچسپ کھیل ہے اس کی چند تصویریں ہم اس انتخاب میں آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
खपाताکھپاتا
absorb
खपातीکھپاتی
used; consumed; made an end of;finished-female
खपतेکھپتے
destroyed, disposed of, killed ; made away with
खपातेکھپاتے
used; consumed; make an end of-male
فن خطاطی و مخطوطہ شناسی
فضل الحق
کالیگرافی / خطاطی
ازالۃ الخفا عن خلافتہ الخلفا
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
سوانح حیات
آباد خرابہ
کشور ناہید
شاعری
خط و خطاطی
ممتاز حسین جونپوری
اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ
شمیم حنفی
تنقید
ترجمہ مجربات دیربی
خواجہ احمد الدیربی
ترجمہ
خواجہ حسن نظامی
نثار احمد فاروقی
خود نوشت
گوجر گوجری زبان و ادب
فرعون
مظہر الحق علوی
فن خطاطی
انوار احمد آرٹسٹ
تاریخ کشمیر
پنڈت ہرگوپال خستہ
ہندوستانی تاریخ
نیلی جھیل کا خزانہ
ستار طاہر
ناول
کھاتہ نویسی اور کھاتہ داری
کیو۔ ایچ۔ فاروقی
معاشیات
مکتوبات حضرت خواجہ محمد معصوم
نقشبندیہ
روح تصوف
حضرت خواجہ بندہ نواز محمد حسینی گیسودراز
تصوف
میں سر بزم تری شوخیٔ وحشت کے حضورجاں کھپاتا ہوں بہت تب کوئی غم کرتا ہوں
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہےایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیںجسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سےتیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کےدل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جاناجس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا
مری پیکار ازل سےیہ خسروؔ میرؔ غالبؔ کا خرابہ بیچتا کیا ہے
یوں تو آپس میں بگڑتے ہیں خفا ہوتے ہیںملنے والے کہیں الفت میں جدا ہوتے ہیں
اسی گلی میں وہ بھوکا فقیر رہتا تھاتلاش کیجے خزانہ یہیں سے نکلے گا
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سےکل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books