Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بسنت پر اشعار

بہاریوں توایک موسم ہے

جواپنی خوشگوارفضا اورخوبصورتی کی بنا پرسب کیلئے پسندیدہ ہوتا ہے لیکن شاعری میں بہار محبوب کے حسن کا استعارہ بھی ہے اورزندگی میں میسرآسانی والی خوشی کی علامت بھی ۔ کلاسیکی شاعری کےعاشق پریہ موسم ایک دوسرے ہی اندازمیں وارد ہوتا ہے کہ خزاں کے بعد بہار بھی آکرگزرجاتی ہے لیکن اس کے ہجرکی میعاد پوری نہیں ہوتی ۔ احتجاجی اورانقلابی شاعری میں بہارکی استعاراتی نوعیت ایک اور رخ اختیارکر لیتی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب ان تمام جہتوں کو محیط ہے۔

آتے نظر ہیں دشت و جبل زرد ہر طرف

ہے اب کے سال ایسی ہے اے دوستاں بسنت

انشا اللہ خاں انشا

جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت

کر کے مجرا شاہ مرداں کی طرف دھائی بسنت

مصحفی غلام ہمدانی

بسنت آئی ہے موج رنگ گل ہے جوش صہبا ہے

خدا کے فضل سے عیش و طرب کی اب کمی کیا ہے

ماہ لقا چندا

ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی

ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی

افق لکھنوی

بلبل ہوا ہے دیکھ سدا رنگ کی بہار

اس سال آبروؔ کوں بن آئی بسنت رت

آبرو شاہ مبارک

آیا بسنت پھول بھی شعلوں میں ڈھل گئے

میں چومنے لگا تو مرے ہونٹ جل گئے

کمار پاشی

غنچے نیں اس بہار میں کڈوایا اپنا دل

بلبل چمن میں پھول کے گائی بسنت رت

آبرو شاہ مبارک

جام عقیق زرد ہے نرگس کے ہاتھ میں

تقسیم کر رہا ہے مے ارغواں بسنت

منیر  شکوہ آبادی

یا رب ہزار سال سلامت رہیں حضور

ہو روز جشن عید یہاں جاوداں بسنت

منیر  شکوہ آبادی

تصویر روئے یار دکھانا بسنت کا

اٹکھیلیوں سے دل کو لبھانا بسنت کا

جتیندر موہن سنہا رہبر

ہم رنگ کی ہے دون نکل اشرفی کے ساتھ

پاتا ہے آ کے رنگ طلائی یہاں بسنت

منیر  شکوہ آبادی

گر شاخ زعفراں اسے کہیے تو ہے روا

ہے فرح بخش واقعی اس حد کوہاں بسنت

انشا اللہ خاں انشا

قدرت کی برکتیں ہیں خزانہ بسنت کا

کیا خوب کیا عجیب زمانہ بسنت کا

جتیندر موہن سنہا رہبر

انشاؔ سے شیخ پوچھتا ہے کیا صلاح ہے

ترغیب بادہ دی ہے مجھے اے جواں بسنت

انشا اللہ خاں انشا

ہر سمت سبزہ زار بچھانا بسنت کا

پھولوں میں رنگ و بو کو لٹانا بسنت کا

جتیندر موہن سنہا رہبر

کوئل نیں آ کے کوک سنائی بسنت رت

بورائے خاص و عام کہ آئی بسنت رت

آبرو شاہ مبارک

پتے نہیں چمن میں کھڑکتے ترے بغیر

کرتی ہے اس لباس میں ہر دم فغاں بسنت

انشا اللہ خاں انشا

پیغام لطف خاص سنانا بسنت کا

دریائے فیض عام بہانا بسنت کا

جتیندر موہن سنہا رہبر

ٹیسو کے پھول دشنۂ خونی ہوے اسے

برہن کے جی کوں ہے یہ کسائی بسنت رت

آبرو شاہ مبارک

کرتا ہے باغ دہر میں نیرنگیاں بسنت

آیا ہے لاکھ رنگ سے اے باغباں بسنت

منیر  شکوہ آبادی

ہر شاخ زرد و سرخ و سیہ ہجر یار میں

ڈستے ہیں دل کو آن کے جوں ناگ اے بسنت

انشا اللہ خاں انشا

جوبن پر ان دنوں ہے بہار نشاط باغ

لیتا ہے پھول بھر کے یہاں جھولیاں بسنت

منیر  شکوہ آبادی

رشک جناں چمن کو بنانا بسنت کا

ہر ہر کلی میں رنگ دکھانا بسنت کا

جتیندر موہن سنہا رہبر

دل کو بہت عزیز ہے آنا بسنت کا

رہبرؔ کی زندگی میں سمانا بسنت کا

جتیندر موہن سنہا رہبر

اب کے بسنت آئی تو آنکھیں اجڑ گئیں

سرسوں کے کھیت میں کوئی پتہ ہرا نہ تھا

بمل کرشن اشک

تو نے لگائی اب کی یہ کیا آگ اے بسنت

جس سے کہ دل کی آگ اٹھے جاگ اے بسنت

انشا اللہ خاں انشا

مصحفیؔ اب اک غزل لکھ تو غزل کی طرح سے

تا کرے عالم کا تاراج شکیبائی بسنت

مصحفی غلام ہمدانی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے