بسنت پر اشعار
بہاریوں توایک موسم ہے
جواپنی خوشگوارفضا اورخوبصورتی کی بنا پرسب کیلئے پسندیدہ ہوتا ہے لیکن شاعری میں بہار محبوب کے حسن کا استعارہ بھی ہے اورزندگی میں میسرآسانی والی خوشی کی علامت بھی ۔ کلاسیکی شاعری کےعاشق پریہ موسم ایک دوسرے ہی اندازمیں وارد ہوتا ہے کہ خزاں کے بعد بہار بھی آکرگزرجاتی ہے لیکن اس کے ہجرکی میعاد پوری نہیں ہوتی ۔ احتجاجی اورانقلابی شاعری میں بہارکی استعاراتی نوعیت ایک اور رخ اختیارکر لیتی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب ان تمام جہتوں کو محیط ہے۔
آتے نظر ہیں دشت و جبل زرد ہر طرف
ہے اب کے سال ایسی ہے اے دوستاں بسنت
جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
کر کے مجرا شاہ مرداں کی طرف دھائی بسنت
بسنت آئی ہے موج رنگ گل ہے جوش صہبا ہے
خدا کے فضل سے عیش و طرب کی اب کمی کیا ہے
بلبل ہوا ہے دیکھ سدا رنگ کی بہار
اس سال آبروؔ کوں بن آئی بسنت رت
آیا بسنت پھول بھی شعلوں میں ڈھل گئے
میں چومنے لگا تو مرے ہونٹ جل گئے
غنچے نیں اس بہار میں کڈوایا اپنا دل
بلبل چمن میں پھول کے گائی بسنت رت
جام عقیق زرد ہے نرگس کے ہاتھ میں
تقسیم کر رہا ہے مے ارغواں بسنت
یا رب ہزار سال سلامت رہیں حضور
ہو روز جشن عید یہاں جاوداں بسنت
تصویر روئے یار دکھانا بسنت کا
اٹکھیلیوں سے دل کو لبھانا بسنت کا
ہم رنگ کی ہے دون نکل اشرفی کے ساتھ
پاتا ہے آ کے رنگ طلائی یہاں بسنت
گر شاخ زعفراں اسے کہیے تو ہے روا
ہے فرح بخش واقعی اس حد کوہاں بسنت
قدرت کی برکتیں ہیں خزانہ بسنت کا
کیا خوب کیا عجیب زمانہ بسنت کا
انشاؔ سے شیخ پوچھتا ہے کیا صلاح ہے
ترغیب بادہ دی ہے مجھے اے جواں بسنت
ہر سمت سبزہ زار بچھانا بسنت کا
پھولوں میں رنگ و بو کو لٹانا بسنت کا
کوئل نیں آ کے کوک سنائی بسنت رت
بورائے خاص و عام کہ آئی بسنت رت
پتے نہیں چمن میں کھڑکتے ترے بغیر
کرتی ہے اس لباس میں ہر دم فغاں بسنت
پیغام لطف خاص سنانا بسنت کا
دریائے فیض عام بہانا بسنت کا
ٹیسو کے پھول دشنۂ خونی ہوے اسے
برہن کے جی کوں ہے یہ کسائی بسنت رت
کرتا ہے باغ دہر میں نیرنگیاں بسنت
آیا ہے لاکھ رنگ سے اے باغباں بسنت
ہر شاخ زرد و سرخ و سیہ ہجر یار میں
ڈستے ہیں دل کو آن کے جوں ناگ اے بسنت
جوبن پر ان دنوں ہے بہار نشاط باغ
لیتا ہے پھول بھر کے یہاں جھولیاں بسنت
رشک جناں چمن کو بنانا بسنت کا
ہر ہر کلی میں رنگ دکھانا بسنت کا
دل کو بہت عزیز ہے آنا بسنت کا
رہبرؔ کی زندگی میں سمانا بسنت کا
اب کے بسنت آئی تو آنکھیں اجڑ گئیں
سرسوں کے کھیت میں کوئی پتہ ہرا نہ تھا
تو نے لگائی اب کی یہ کیا آگ اے بسنت
جس سے کہ دل کی آگ اٹھے جاگ اے بسنت
مصحفیؔ اب اک غزل لکھ تو غزل کی طرح سے
تا کرے عالم کا تاراج شکیبائی بسنت