فلسفہ پر اشعار
فلسفے کے عنوان کے تحت
جو اشعار ہیں وہ زندگی کے باریک اور اہم ترین گوشوں پر سوچ بچار کا نتیجہ ہیں ۔ ان شعروں میں آپ دیکھیں گے کہ زندگی کے عام سے اور روز مرہ کے معاملات کو شاعر فکر کی کس گہری سطح پر جاکر دیکھتا ، پرکھتا اور نتائج اخذ کرتا ہے ۔ اس قسم کی شاعری کو پڑھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہمارے اپنے ذہن ودماغ کی پرتیں کھلتی ہیں اور ہم اپنے آس پاس کی دنیا کو ایک الگ نظر سے دیکھنے کے اہل ہوجاتے ہیں ۔
مدت کے بعد آج میں آفس نہیں گیا
خود اپنے ساتھ بیٹھ کے دن بھر شراب پی
دھوکہ ہے اک فریب ہے منزل کا ہر خیال
سچ پوچھئے تو سارا سفر واپسی کا ہے
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
-
موضوعات : آدمیاور 3 مزید
گر جوش پہ ٹک آیا دریاؤ طبیعت کا
ہم تم کو دکھا دیں گے پھیلاؤ طبیعت کا
روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں
شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر
اپنے ہونے کا کچھ احساس نہ ہونے سے ہوا
خود سے ملنا مرا اک شخص کے کھونے سے ہوا
جانے کتنے لوگ شامل تھے مری تخلیق میں
میں تو بس الفاظ میں تھا شاعری میں کون تھا
مرے فسوں نے دکھائی ہے تیرے رخ کی سحر
مرے جنوں نے بنائی ہے تیرے زلف کی شام
بتوں کو پوجنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہو
ڈرو اس سے کہ جس نے ان کو اس قابل بنایا ہے
میں بھی یہاں ہوں اس کی شہادت میں کس کو لاؤں
مشکل یہ ہے کہ آپ ہوں اپنی نظیر میں
-
موضوع : وجود
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم
-
موضوعات : وقتاور 1 مزید
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فرازؔ
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ