Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

حبیب موسوی

حبیب موسوی کے اشعار

1.1K
Favorite

باعتبار

لکھ کر مقطعات میں دیں ان کو عرضیاں

جو دائرے تھے کاسۂ دست گدا ہوئے

کسی صورت سے ہوئی کم نہ ہماری تشویش

جب بڑھی دل سے تو آفاق میں پھیلی تشویش

تیزیٔ بادہ کجا تلخیٔ گفتار کجا

کند ہے نشتر ساقی سے سنان واعظ

گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ

خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ

چاندنی چھپتی ہے تکیوں کے تلے آنکھوں میں خواب

سونے میں ان کا دوپٹہ جو سرک جاتا ہے

کرو باتیں ہٹاؤ آئنہ بس بن چکے گیسو

انہیں جھگڑوں ہی میں اس دن بھی کتنی رات آئی تھی

زباں پر ترا نام جب آ گیا

تو گرتے کو دیکھا سنبھلتے ہوئے

اصل ثابت ہے وہی شرع کا اک پردہ ہے

دانے تسبیح کے سب پھرتے ہیں زناروں پر

دل میں بھری ہے خاک میں ملنے کی آرزو

خاکستری ہوا ہے ہماری قبا کا رنگ

تھوڑی تھوڑی راہ میں پی لیں گے گر کم ہے تو کیا

دور ہے مے خانہ یہ زاد سفر شیشہ میں ہے

دشت و صحرا میں حسیں پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے

آج کل خانۂ امید ہے ویراں کس کا

پلا ساقی مئے گل رنگ پھر کالی گھٹا آئی

چھپانے کو گنہ مستوں کے کعبہ کی ردا آئی

بہت دنوں میں وہ آئے ہیں وصل کی شب ہے

موذن آج نہ یا رب اٹھے اذاں کے لئے

فصل گل آئی اٹھا ابر چلی سرد ہوا

سوئے مے خانہ اکڑتے ہوئے مے خوار چلے

قدموں پہ ڈر کے رکھ دیا سر تاکہ اٹھ نہ جائیں

ناراض دل لگی میں جو وہ اک ذرا ہوئے

میکدے کو جا کے دیکھ آؤں یہ حسرت دل میں ہے

زاہد اس مٹی کی الفت میری آب و گل میں ہے

لب جاں بخش تک جا کر رہے محروم بوسہ سے

ہم اس پانی کے پیاسے تھے جو تڑپاتا ہے ساحل پر

جلوہ گر دل میں خیال عارض جانانہ تھا

گھر کی زینت تھی کہ زینت بخش صاحب خانہ تھا

کیا ہوا ویراں کیا گر محتسب نے مے کدہ

جمع پھر کل شام تک ہر ایک شے ہو جائے گی

جب کہ وحدت ہے باعث کثرت

ایک ہے سب کا راستا واعظ

یوں آتی ہیں اب میرے تنفس کی صدائیں

جس طرح سے دیتا ہے کوئی نوحہ گر آواز

یہ ثابت ہے کہ مطلق کا تعین ہو نہیں سکتا

وہ سالک ہی نہیں جو چل کے تا دیر و حرم ٹھہرے

حضرت واعظ نہ ایسا وقت ہاتھ آئے گا پھر

سب ہیں بے خود تم بھی پی لو کچھ اگر شیشہ میں ہے

جا سکے نہ مسجد تک جمع تھے بہت زاہد

میکدے میں آ بیٹھے جب نہ راستا پایا

کسی ہیں بھبتیاں مسجد میں ریش واعظ پر

کہیں نہ میری طبیعت خدا گواہ رکی

مے کدہ ہے شیخ صاحب یہ کوئی مسجد نہیں

آپ شاید آئے ہیں رندوں کے بہکائے ہوئے

تیرا کوچہ ہے وہ اے بت کہ ہزاروں زاہد

ڈال کے سبحہ میں یاں رشتۂ زنار چلے

غربت بس اب طریق محبت کو قطع کر

مدت ہوئی ہے اہل وطن سے جدا ہوئے

دل لیا ہے تو خدا کے لئے کہہ دو صاحب

مسکراتے ہو تمہیں پر مرا شک جاتا ہے

خدا کرے کہیں مے خانہ کی طرف نہ مڑے

وہ محتسب کی سواری فریب راہ رکی

برہمن شیخ کو کر دے نگاہ ناز اس بت کی

گلوئے زہد میں تار نظر زنار بن جائے

رندوں کو وعظ پند نہ کر فصل گل میں شیخ

ایسا نہ ہو شراب اڑے خانقاہ میں

بتان سرو قامت کی محبت میں نہ پھل پایا

ریاضت جن پہ کی برسوں وہ نخل بے ثمر نکلے

تیرہ بختی کی بلا سے یوں نکلنا چاہیے

جس طرح سلجھا کے زلفوں کو الگ شانہ ہوا

محتسب تو نے کیا گر جام صہبا پاش پاش

جبہ و عمامہ ہم کر دیں گے سارا پاش پاش

جو لے لیتے ہو یوں ہر ایک کا دل باتوں باتوں میں

بتاؤ سچ یہ چالاکی تمہیں کس نے سکھائی تھی

شمع کا شانۂ اقبال ہے توفیق کرم

غنچہ گل ہوتے ہی خود صاحب زر ہوتا ہے

طالب بوسہ ہوں میں قاصد وہ ہیں خواہان جان

یہ ذرا سی بات ہے ملتے ہی طے ہو جائے گی

ناصح یہ وعظ و پند ہے بے کار جائے گا

ہم سے بھی بادہ کش ہیں کہیں پارسا ہوئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے