میر حسن کے اشعار
دوستی کس سے نہ تھی کس سے مجھے پیار نہ تھا
جب برے وقت پہ دیکھا تو کوئی یار نہ تھا
آساں نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا
اک عمر کھو کے ہم نے سیکھا ہے خاک ہونا
اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز
ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں
-
موضوع : رقیب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
کیا غضب کرتے ہو ادھر دیکھو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جان و دل ہیں اداس سے میرے
اٹھ گیا کون پاس سے میرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنے آنسو تو نہ تھے دیدۂ تر کے آگے
اب تو پانی ہی بھرا رہتا ہے گھر کے آگے
-
موضوع : آنسو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم
پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اظہار خموشی میں ہے سو طرح کی فریاد
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
گو بھلے سب ہیں اور میں ہوں برا
کیا بھلوں میں برا نہیں ہوتا
وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں
یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیوں ان دنوں حسنؔ تو اتنا جھٹک گیا ہے
ظالم کہیں ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے
میں نے جو کہا مجھ پہ کیا کیا نہ ستم گزرا
بولا کہ ابے تیرا روتے ہی جنم گزرا
ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک
-
موضوع : بہار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا
یاں لوگ عجب عجب ملیں گے
-
موضوع : دنیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم کو بھی دشمنی سے ترے کام کچھ نہیں
تجھ کو اگر ہمارے نہیں پیار سے غرض
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عشق کا اب مرتبہ پہنچا مقابل حسن کے
بن گئے بت ہم بھی آخر اس صنم کی یاد میں
سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے
تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
فرقت کی شب میں آج کی پھر کیا جلاویں گے
دل کا دیا تھا ایک سو کل ہی جلا دیا
مت پونچھ ابروئے عرق آلود ہاتھ سے
لازم ہے احتیاط کہ ہے آب دار تیغ
نہ غرض مجھ کو ہے کافر سے نہ دیں دار سے کام
روز و شب ہے مجھے اس کاکل خم دار سے کام
اس کو امید نہیں ہے کبھی پھر بسنے کے
اور ویرانوں سے اس دل کا ہے ویرانہ جدا
لگایا محبت کا جب یاں شجر
شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا
نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہے یہی شوق شہادت کا اگر دل میں تو عشق
لے ہی پہنچے گا ہمیں بھی تری شمشیر تلک
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں نے پایا نہ اسے شہر میں نہ صحرا میں
تو نے لے جا کے مرے دل کو کہاں چھوڑ دیا
بس گیا جب سے یار آنکھوں میں
تب سے پھولی بہار آنکھوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب سے جدا ہوا ہے وہ شوخ تب سے مجھ کو
نت آہ آہ کرنا اور زار زار رونا
درد کرتا ہے تپ عشق کی شدت سے مرا
سر جدا سینہ جدا قلب جدا شانہ جدا
ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر
اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز
گزری ہے رات مجھ میں اور دل میں طرفہ صحبت
ایدھر تو میں نے کی آہ اودھر سے وہ کراہا
اس شوخ کے جانے سے عجب حال ہے میرا
جیسے کوئی بھولے ہوئے پھرتا ہے کچھ اپنا
خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن
جس طرف دل کی طبیعت ہو ادھر کو چلیے
تاکہ عبرت کریں اور غیر نہ دیکھیں تجھ کو
جی میں آتا ہے نکلوائیے دو چار کی آنکھ
کوچۂ یار ہے اور دیر ہے اور کعبہ ہے
دیکھیے عشق ہمیں آہ کدھر لاوے گا
مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو
ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا
آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے
دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں
-
موضوع : آہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک دم بھی ملا نہ ہم کو قرار
اس دل بے قرار کے ہاتھوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیوں گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا
نظر آنے سے رہ گیا از بس
چھا گیا انتظار آنکھوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آہ کیا شکوہ کروں میں ہاتھ سے اس کے حنا
جب ہوئی میرے لہو کی رنگ تب دھونے لگا
کہتا ہے تو کہ تجھ کو پاتا نہیں کبھی گھر
یہ جھوٹ سچ ہے دیکھوں آج اپنے گھر رہوں گا