Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mohammad Mustahsan Jami's Photo'

محمد مستحسن جامی

1994 | خوشاب, پاکستان

محمد مستحسن جامی کے اشعار

1.4K
Favorite

باعتبار

ہمارے پرکھوں نے جوتے کی نوک پر رکھی

ہمارے پاس بھی دنیا تبھی نہیں آتی

ترے حضور مری فکر کی رسائی کیا

ترے جمال کا منظر ہو کیا بیاں مجھ سے

عجیب اجرت محبتوں کی وہ دے گیا ہے

کیا ہے اندھے ہجوم پر آشکار مجھ کو

بہار بن کے حسیں دریچوں میں آنے والا

چلا گیا ہے بھرا چمن سوگوار کر کے

جو جان چھڑکتے تھے وہی کہتے ہیں مجھ سے

تو حلقۂ احباب میں شامل ہی کہاں تھا

ہم تلوار اٹھا نہیں پائے

ہم آواز اٹھا سکتے تھے

لکھ کے رکھ دیتا ہوں الفاظ سبھی کاغذ پر

لفظ خود بول کے تاثیر بنا لیتے ہیں

فطرت کا اگر شور حسیں غور سے سنئے

پھر اصل محبت کے ہیں حق دار پرندے

تری لب کشائی پہ منحصر مری زندگانی ہے دوستا

ترا بولنا بھی قبول ہے تری خامشی بھی عزیز ہے

مجھے خبر ہے کیا کچھ ہے بنیادوں میں

تیری بستی کا پہلا مزدور تھا میں

آپ ہمدردی نہ یوں جتلائیے

یہ مرا معمول کا نقصان ہے

سوائے اس کے کوئی بھی مصروفیت نہیں ہے

میں ان دنوں بس چراغ تقسیم کر رہا ہوں

یہ بستیاں ہیں اندھیر نگری میں رہنے والی

یہ لوگ وہ ہیں جو روشنی سے ڈرے ہوئے ہیں

اک نظر نے مجھے زندگی بخش دی

مجھ سے مت پوچھئے میں فنا کب ہوا

اس واسطے میں ہار گیا تیری طرف سے

ناکام پلٹ آئے تھے سب تیر ہدف سے

رنگ بدلا ہوا تھا پھولوں کا

تم یقیناً اداس گزرے تھے

میری خواہش ہے کہ جی بھر کے اسے دیکھ تو لوں

ہجر کے ممکنہ صدمات سے پہلے پہلے

بن دیکھے بھی چین نہیں ہے مستحسنؔ

دیکھوں تو ساری بینائی جاتی ہے

کیا خبر تھی کہ مجھے اس نے جکڑ لینا ہے

میں اداسی پہ بہت طنز کیا کرتا تھا

مری تمناؤں کا سفر کس قدر حسیں ہے

کبھی میسر ہے تیرا شانہ کبھی جبیں ہے

تو سامنے آ گیا تو کیا حال ہوگا ان کا

ترے تصور نے جن کو سرشار کر دیا ہے

بدلے ہیں زمانے نے خد و خال ترے بھی

اب تجھ کو کوئی دیکھ کے پاگل نہیں ہوتا

دیکھ کر اس کو سب خواہشیں مٹ گئیں

کچھ بچا ہی نہیں دیکھنے کے لئے

لفظ اور آواز دونوں کھو گئے

مجھ سے حق چھینا گیا ہے بات کا

جہاں پہ باطنی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں

وہ در جہاں میں کسی بھی ولی کا ہوتا ہے

ادراک ترے حسن کی تصویر گری کا

یوں لگتا ہے جیسے کوئی برسوں کا سفر ہے

میری نظر میں وہ کوئی محبوب ہی نہیں

اپنے پرائے شخص کی جس کو خبر نہ ہو

دوسرے شخص کیا کہوں تجھ کو

ایک ہونے نہیں دیا تو نے

لطف کی ان پہ کوئی خاص نظر ہے کہ نہیں

اپنے مستوں کی کوئی خیر خبر ہے کہ نہیں

یہ معجزہ ہے محبت میں سرخ روئی کا

بھرے جہان میں مجھ بے ہنر کے چرچے ہیں

مجھ جیسے درویش تمہاری دنیا میں

مرنے کی خواہش میں زندہ رہتے ہیں

تجھے میں دیتا ہوں مولا کا واسطہ دنیا

مرے وجود سے رکھ فاصلہ زمانوں کا

یقین ہے نہ کسی کو گمان موت نہ دے

مرے خدا تو کسی کو جوان موت نہ دے

صحرائے انتظار میں رہنا ہے عمر بھر

زاد سفر میں صرف کفن چاہئے مجھے

تجھ کو تو ملا وہ بھی جو مانگا نہیں تو نے

تو نے تو کبھی خون تمنا نہیں دیکھا

فراغتوں میں فقط ایک کام کرتا ہوں

میں روشنی سے مسلسل کلام کرتا ہوں

میں اسے یکسوئی سے پڑھ ہی نہیں پایا کبھی

زندگی کے لفظ میں کتنے جہاں آباد تھے

یہ لوگ اپنے عدو کو بھی فیض دیتے ہیں

قلندروں کی جہاں میں یہی طریقت ہے

وہ جلوۂ صد رنگ میں اک ڈھنگ سے نکلا

جو مصرعہ ترے سینہ و آہنگ سے نکلا

کثافتیں میرے باطن کی دور کرتے ہیں

قیام مجھ میں بہت سے طیور کرتے ہیں

کوئی نہ کوئی کسک دل میں رہ ہی جاتی ہے

وہ اختلاف بھی پوری طرح نہیں کرتا

بھلے زمانے میں جس قدر بھی ستم روا ہوں

فقیر کا در کبھی مقفل نہیں ملے گا

دنیا کے قافلے میں روانہ ہیں اس لئے

ہم بھی منافقین کی پہچان کر سکیں

ایسے لگتا ہے بدن کاٹ رہی ہے میرا

جس اذیت کا ابھی نام نہیں ہے کوئی

ان چراغوں کا کیا بگاڑا تھا؟

کیوں جھگڑتی ہے روشنی مجھ سے

یخ بستہ شب گزار کبھی تو بھی ہجر میں

میری طرح کسی سے مودت تجھے بھی ہو

سفر میں ماں کی دعاؤں سے چھت بناتا ہوں

اگر کبھی نہ میسر ہو سائبان مجھے

دستک دینے والے تجھ کو علم نہیں

دروازے کے دونوں جانب تالا ہے

وہ فاتحہ کے واسطے رستے میں ہے ابھی

اڑنے لگی ہے خاک ہمارے مزار سے

یہ اپنی کیفیت کا بتاتے نہیں کبھی

مولا تمام ہجر کے ماروں کی خیر ہو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے