محمد مستحسن جامی کے اشعار
ہمارے پرکھوں نے جوتے کی نوک پر رکھی
ہمارے پاس بھی دنیا تبھی نہیں آتی
ترے حضور مری فکر کی رسائی کیا
ترے جمال کا منظر ہو کیا بیاں مجھ سے
عجیب اجرت محبتوں کی وہ دے گیا ہے
کیا ہے اندھے ہجوم پر آشکار مجھ کو
بہار بن کے حسیں دریچوں میں آنے والا
چلا گیا ہے بھرا چمن سوگوار کر کے
جو جان چھڑکتے تھے وہی کہتے ہیں مجھ سے
تو حلقۂ احباب میں شامل ہی کہاں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم تلوار اٹھا نہیں پائے
ہم آواز اٹھا سکتے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لکھ کے رکھ دیتا ہوں الفاظ سبھی کاغذ پر
لفظ خود بول کے تاثیر بنا لیتے ہیں
فطرت کا اگر شور حسیں غور سے سنئے
پھر اصل محبت کے ہیں حق دار پرندے
تری لب کشائی پہ منحصر مری زندگانی ہے دوستا
ترا بولنا بھی قبول ہے تری خامشی بھی عزیز ہے
مجھے خبر ہے کیا کچھ ہے بنیادوں میں
تیری بستی کا پہلا مزدور تھا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آپ ہمدردی نہ یوں جتلائیے
یہ مرا معمول کا نقصان ہے
سوائے اس کے کوئی بھی مصروفیت نہیں ہے
میں ان دنوں بس چراغ تقسیم کر رہا ہوں
یہ بستیاں ہیں اندھیر نگری میں رہنے والی
یہ لوگ وہ ہیں جو روشنی سے ڈرے ہوئے ہیں
اک نظر نے مجھے زندگی بخش دی
مجھ سے مت پوچھئے میں فنا کب ہوا
اس واسطے میں ہار گیا تیری طرف سے
ناکام پلٹ آئے تھے سب تیر ہدف سے
رنگ بدلا ہوا تھا پھولوں کا
تم یقیناً اداس گزرے تھے
میری خواہش ہے کہ جی بھر کے اسے دیکھ تو لوں
ہجر کے ممکنہ صدمات سے پہلے پہلے
بن دیکھے بھی چین نہیں ہے مستحسنؔ
دیکھوں تو ساری بینائی جاتی ہے
کیا خبر تھی کہ مجھے اس نے جکڑ لینا ہے
میں اداسی پہ بہت طنز کیا کرتا تھا
مری تمناؤں کا سفر کس قدر حسیں ہے
کبھی میسر ہے تیرا شانہ کبھی جبیں ہے
تو سامنے آ گیا تو کیا حال ہوگا ان کا
ترے تصور نے جن کو سرشار کر دیا ہے
بدلے ہیں زمانے نے خد و خال ترے بھی
اب تجھ کو کوئی دیکھ کے پاگل نہیں ہوتا
دیکھ کر اس کو سب خواہشیں مٹ گئیں
کچھ بچا ہی نہیں دیکھنے کے لئے
لفظ اور آواز دونوں کھو گئے
مجھ سے حق چھینا گیا ہے بات کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جہاں پہ باطنی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں
وہ در جہاں میں کسی بھی ولی کا ہوتا ہے
ادراک ترے حسن کی تصویر گری کا
یوں لگتا ہے جیسے کوئی برسوں کا سفر ہے
میری نظر میں وہ کوئی محبوب ہی نہیں
اپنے پرائے شخص کی جس کو خبر نہ ہو
دوسرے شخص کیا کہوں تجھ کو
ایک ہونے نہیں دیا تو نے
لطف کی ان پہ کوئی خاص نظر ہے کہ نہیں
اپنے مستوں کی کوئی خیر خبر ہے کہ نہیں
یہ معجزہ ہے محبت میں سرخ روئی کا
بھرے جہان میں مجھ بے ہنر کے چرچے ہیں
مجھ جیسے درویش تمہاری دنیا میں
مرنے کی خواہش میں زندہ رہتے ہیں
تجھے میں دیتا ہوں مولا کا واسطہ دنیا
مرے وجود سے رکھ فاصلہ زمانوں کا
یقین ہے نہ کسی کو گمان موت نہ دے
مرے خدا تو کسی کو جوان موت نہ دے
صحرائے انتظار میں رہنا ہے عمر بھر
زاد سفر میں صرف کفن چاہئے مجھے
تجھ کو تو ملا وہ بھی جو مانگا نہیں تو نے
تو نے تو کبھی خون تمنا نہیں دیکھا
فراغتوں میں فقط ایک کام کرتا ہوں
میں روشنی سے مسلسل کلام کرتا ہوں
میں اسے یکسوئی سے پڑھ ہی نہیں پایا کبھی
زندگی کے لفظ میں کتنے جہاں آباد تھے
یہ لوگ اپنے عدو کو بھی فیض دیتے ہیں
قلندروں کی جہاں میں یہی طریقت ہے
وہ جلوۂ صد رنگ میں اک ڈھنگ سے نکلا
جو مصرعہ ترے سینہ و آہنگ سے نکلا
کثافتیں میرے باطن کی دور کرتے ہیں
قیام مجھ میں بہت سے طیور کرتے ہیں
کوئی نہ کوئی کسک دل میں رہ ہی جاتی ہے
وہ اختلاف بھی پوری طرح نہیں کرتا
بھلے زمانے میں جس قدر بھی ستم روا ہوں
فقیر کا در کبھی مقفل نہیں ملے گا
دنیا کے قافلے میں روانہ ہیں اس لئے
ہم بھی منافقین کی پہچان کر سکیں
ایسے لگتا ہے بدن کاٹ رہی ہے میرا
جس اذیت کا ابھی نام نہیں ہے کوئی
ان چراغوں کا کیا بگاڑا تھا؟
کیوں جھگڑتی ہے روشنی مجھ سے
یخ بستہ شب گزار کبھی تو بھی ہجر میں
میری طرح کسی سے مودت تجھے بھی ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سفر میں ماں کی دعاؤں سے چھت بناتا ہوں
اگر کبھی نہ میسر ہو سائبان مجھے
دستک دینے والے تجھ کو علم نہیں
دروازے کے دونوں جانب تالا ہے
وہ فاتحہ کے واسطے رستے میں ہے ابھی
اڑنے لگی ہے خاک ہمارے مزار سے
یہ اپنی کیفیت کا بتاتے نہیں کبھی
مولا تمام ہجر کے ماروں کی خیر ہو