Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

پروین ام مشتاق

1866 | دلی, انڈیا

کلاسیکی دور کے نمایاں شعراء میں شامل

کلاسیکی دور کے نمایاں شعراء میں شامل

پروین ام مشتاق کے اشعار

986
Favorite

باعتبار

آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع

اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی

زاہد سنبھل غرور خدا کو نہیں پسند

فرش زمیں پہ پاؤں دماغ آسمان پر

گر آپ پہلے رشتۂ الفت نہ توڑتے

مر مٹ کے ہم بھی خیر نبھاتے کسی طرح

دیئے جائیں گے کب تک شیخ صاحب کفر کے فتوے

رہیں گی ان کے صندوقچہ میں دیں کی کنجیاں کب تک

مخلوق کو تمہاری محبت میں اے بتو

ایمان کا خیال نہ اسلام کا لحاظ

نکلے ہیں گھر سے دیکھنے کو لوگ ماہ عید

اور دیکھتے ہیں ابروئے خم دار کی طرف

جنوں ہوتا ہے چھا جاتی ہے حیرت

کمال عقل اک دیوانہ پن ہے

وہ ہی آسان کرے گا مری دشواری کو

جس نے دشوار کیا ہے مری آسانی کو

مدت سے اشتیاق ہے بوس و کنار کا

گر حکم ہو شروع کرے اپنا کام حرص

دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کتاب دہر میں

تو سراپا حسن کا نقشہ ہے میں تصویر عشق

مری قسمت لکھی جاتی تھی جس دن میں اگر ہوتا

اڑا ہی لیتا دست کاتب تقدیر سے کاغذ

ہوتی نہ شریعت میں پرستش کبھی ممنوع

گر پہلے بھی بت خانوں میں ہوتے صنم ایسے

پی بادۂ احمر تو یہ کہنے لگا گل رو

میں سرخ ہوں تم سرخ زمیں سرخ زماں سرخ

کیوں اجاڑا زاہدو بتخانۂ آباد کو

مسجدیں کافی نہ ہوتیں کیا خدا کی یاد کو

کسی کے سنگ در سے ایک مدت سر نہیں اٹھا

محبت میں ادا کی ہیں نمازیں بے وضو برسوں

بھیج تو دی ہے غزل دیکھیے خوش ہوں کہ نہ ہوں

کچھ کھٹکتے ہوئے الفاظ نظر آتے ہیں

بد قسمتوں کو گر ہو میسر شب وصال

سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہو نور صبح

فرق کیا مقتل میں اور گلزار میں

ڈھال میں ہیں پھول پھل تلوار میں

نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا

کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا

کس طرح کر دیا دل نازک کو چور چور

اس واقعہ کی خاک ہے پتھر کو اطلاع

اک ادنیٰ سا پردہ ہے اک ادنیٰ سا تفاوت

مخلوق میں معبود میں بندہ میں خدا میں

ہوا میں جب اڑا پردہ تو اک بجلی سی کوندی تھی

خدا جانے تمہارا پرتو رخسار تھا کیا تھا

مجھے جب مار ہی ڈالا تو اب دونوں برابر ہیں

اڑاؤ خاک صرصر بن کے یا باد صبا بن کر

بال رخساروں سے جب اس نے ہٹائے تو کھلا

دو فرنگی سیر کو نکلے ہیں ملک شام سے

اگر لوہے کے گنبد میں رکھیں گے اقربا ان کو

وہیں پہنچائے گا عاشق کسی تدبیر سے کاغذ

اہل دنیا باؤلے ہیں باؤلوں کی تو نہ سن

نیند اڑاتا ہو جو افسانہ اس افسانہ سے بھاگ

چبھیں گے زیرہ ہائے شیشۂ دل دست نازک میں

سنبھل کر ہاتھ ڈالا کیجیے میرے گریباں پر

کچھ تو کمی ہو روز جزا کے عذاب میں

اب سے پیا کریں گے ملا کر گلاب میں

واعظ کو لعن طعن کی فرصت ہے کس طرح

پوری ابھی خدا کی طرف لو لگی نہیں

ٹھہر جاؤ بوسے لینے دو نہ توڑو سلسلہ

ایک کو کیا واسطہ ہے دوسرے کے کام سے

اسی دن سے مجھے دونوں کی بربادی کا خطرہ تھا

مکمل ہو چکے تھے جس گھڑی ارض و سما بن کر

دلوایئے بوسہ دھیان بھی ہے

اس قرضۂ واجب الادا کا

سنتے سنتے واعظوں سے ہجو مے

ضعف سا کچھ آ گیا ایمان میں

اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی

اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی

کبھی نہ جائے گا عاشق سے دیکھ بھال کا روگ

پلاؤ لاکھ اسے بد مزہ دوائے فراق

مر چکا میں تو نہیں اس سے مجھے کچھ حاصل

برسے گر پانی کی جا آب بقا میرے بعد

جاں گھل چکی ہے غم میں اک تن ہے وہ بھی مہمل

معنی نہیں ہیں بالکل مجھ میں اگر بیاں ہوں

پوچھ لے پرویںؔ سے یا قیس سے دریافت کر

شہر میں مشہور ہے تیرے فدائی کا عشق

پو پھٹتے ہی ریاضؔ جہاں خلد بن گیا

غلمان مہر ساتھ لئے آئی حور صبح

Recitation

بولیے