شاہ نصیر کے اشعار
مشکل ہے روک آہ دل داغ دار کی
کہتے ہیں سو سنار کی اور اک لہار کی
کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب
عاشق جو ترا ہے نہ ادھر کا نہ ادھر کا
-
موضوع : ہزار داستان عشق
غرور حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کم نہیں ہے افسر شاہی سے کچھ تاج گدا
گر نہیں باور تجھے منعم تو دونوں تول تاج
ملا کی دوڑ جیسے ہے مسجد تلک نصیرؔ
ہے مست کی بھی خانۂ خمار تک پہنچ
لگا نہ دل کو تو اپنے کسی سے دیکھ نصیرؔ
برا نہ مان کہ اس میں نہیں بھلا دل کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مے کشی کا ہے یہ شوق اس کو کہ آئینے میں
کان کے جھمکے کو انگور کا خوشا سمجھا
یہ ابر ہے یا فیل سیہ مست ہے ساقی
بجلی کے جو ہے پاؤں میں زنجیر ہوا پر
کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں
چار عنصر سے کھلے معنیٔ پنہاں ہم کو
خیال ناف بتاں سے ہو کیوں کہ دل جاں بر
نکلتے کوئی بھنور سے نہ ڈوبتا دیکھا
میں اس کی چشم کا بیمار ناتواں ہوں طبیب
جو میرے حق میں مناسب ہو وہ دوا ٹھہرا
آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب
بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھو گے کہ میں کیسا پھر شور مچاتا ہوں
تم اب کے نمک میرے زخموں پہ چھڑک دیکھو
خیال زلف دوتا میں نصیرؔ پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر
رکھ قدم ہشیار ہو کر عشق کی منزل میں آہ
جو ہوا اس راہ میں غافل ٹھکانے لگ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر
عشق ہی دونوں طرف جلوۂ دلدار ہوا
ورنہ اس ہیر کا رانجھے کو رجھانا کیا تھا
بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ
نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا
کیوں مے کے پینے سے کروں انکار ناصحا
زاہد نہیں ولی نہیں کچھ پارسا نہیں
پستاں کو تیرے دیکھ کے مٹ جائے پھر حباب
دریا میں تا بہ سینہ اگر تو نہائے صبح
شیخ صاحب کی نماز سحری کو ہے سلام
حسن نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا
ترے ہی نام کی سمرن ہے مجھ کو اور تسبیح
تو ہی ہے ورد ہر اک صبح و شام عاشق کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نصیرؔ اس زلف کی یہ کج ادائی کوئی جاتی ہے
مثل مشہور ہے رسی جلی لیکن نہ بل نکلا
برقعہ کو الٹ مجھ سے جو کرتا ہے وہ باتیں
اب میں ہمہ تن گوش بنوں یا ہمہ تن چشم
کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں
چار عنصر کے سوا اور ہے انسان میں کیا
سو بار بوسۂ لب شیریں وہ دے تو لوں
کھانے سے دل مرا ابھی شکر نہیں پھرا
تشنگی خاک بجھے اشک کی طغیانی سے
عین برسات میں بگڑے ہے مزا پانی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک آبلہ تھا سو بھی گیا خار غم سے پھٹ
تیری گرہ میں کیا دل اندوہ گیں رہا
نہ ہاتھ رکھ مرے سینے پہ دل نہیں اس میں
رکھا ہے آتش سوزاں کو داب کے گھر میں
جوں موج ہاتھ ماریے کیا بحر عشق میں
ساحل نصیرؔ دور ہے اور دم نہیں رہا
لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
بہم ہر موج سے چلنے لگی تلوار پانی میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب کہ لے زلف تری مصحف رخ کا بوسہ
پھر یہاں فرق ہو ہندو و مسلمان میں کیا
لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں
تیرے خیال ناف سے چکر میں کیا ہے دل
گرداب سے نکل کے شناور نہیں پھرا
مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ
میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اسی مضمون سے معلوم اس کی سرد مہری ہے
مجھے نامہ جو اس نے کاغذ کشمیر پر لکھا
کوئی یہ شیخ سے پوچھے کہ بند کر آنکھیں
مراقبے میں بتا صبح و شام کیا دیکھا
گلے میں تو نے وہاں موتیوں کا پہنا ہار
یہاں پہ اشک مسلسل گلے کا ہار رہا
ریختہ کے قصر کی بنیاد اٹھائی اے نصیرؔ
کام ہے ملک سخن میں صاحب مقدور کا
بنا کر من کو منکا اور رگ تن کے تئیں رشتہ
اٹھا کر سنگ سے پھر ہم نے چکناچور کی تسبیح
دن رات یہاں پتلیوں کا ناچ رہے ہے
حیرت ہے کہ تو محو تماشا نہیں ہوتا
لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر
سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا
-
موضوع : آبلہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم وہ فلک ہیں اہل توکل کہ مثل ماہ
رکھتے نہیں ہیں نان شبینہ برائے صبح
لے گیا دے ایک بوسہ عقل و دین و دل وہ شوخ
کیا حساب اب کیجے کچھ اپنا ہی فاضل رہ گیا
آتا ہے تو آ وعدہ فراموش وگرنہ
ہر روز کا یہ لیت و لعل جائے تو اچھا
جا بجا دشت میں خیمے ہیں بگولے کے کھڑے
عرس مجنوں کی ہے دھوم آج بیابان میں کیا
نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خدا گواہ ہے میں شغل بت پرستی میں
سوائے عشق کسی کام سے نہیں واقف
پوچھنے والوں کو کیا کہیے کہ دھوکے میں نہیں
کفر و اسلام حقیقت میں ہیں یکساں ہم کو
سیر کی ہم نے جو کل محفل خاموشاں کی
نہ تو بیگانہ ہی بولا نہ پکارا اپنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ