Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khursheed Akbar's Photo'

خورشید اکبر

1959 | پٹنہ, انڈیا

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

خورشید اکبر کے اشعار

باعتبار

دل ہے کہ ترے پاؤں سے پازیب گری ہے

سنتا ہوں بہت دیر سے جھنکار کہیں کی

ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی

یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے

قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے

آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے

ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی

اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے

زندگی! تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا

کیسی کیسی تری تصویر نکل آئی ہے

درد کا ذائقہ بتاؤں کیا

یہ علاقہ زباں سے باہر ہے

چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں

آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے

خود سے لکھنے کا اختیار بھی دے

ورنہ قسمت کی تختیاں لے جا

دلیلیں چھین کر میرے لبوں سے

وہ مجھ کو مجھ سے بہتر کاٹتا ہے

یہاں تو رسم ہے زندوں کو دفن کرنے کی

کسی بھی قبر سے مردہ کہاں نکلتا ہے

غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں

آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے

کشتی کی طرح تم مجھے دریا میں اتارو

میں بیچ بھنور میں تمہیں پتوار بناؤں

سہل کیا بار امانت کا اٹھانا ہے فلک

میں سنبھلتا ہوں مرے ساتھ سنبھلتی ہے زمیں

دنیا کو روندنے کا ہنر جانتا ہوں میں

لیکن یہ سوچتا ہوں کہ دنیا کے بعد کیا

شہر جب خود کفیل ہے صاحب

کون کس کا ملال کرتا ہے

سسکتی آرزو کا درد ہوں فٹ پاتھ جیسا ہوں

کہ مجھ میں چھٹپٹاتا شہر کلکتہ بھی رہتا ہے

سلگتی پیاس نے کر لی ہے مورچہ بندی

اسی خطا پہ سمندر خلاف رہتا ہے

اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو

کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ

آتے آتے آئے گی دنیا داری

جاتے جاتے فاقہ مستی جائے گی

لہو تیور بدلتا ہے کہاں تک

مرا بیٹا سیانا ہو تو دیکھوں

سمندر آسماں اس پر ستاروں کا سفینہ

مرا مہتاب غم ہے بیکرانی دیکھنے میں

یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں

میں کس کی آنکھ کا پانی ہوں کس پتھر میں رہتا ہوں

شہر بے آب ہوا جاتا ہے

اپنی آنکھوں میں بچا لوں پانی

مرثیہ ہوں میں غلاموں کی خوش الہامی کا

شاہ کے حق میں قصیدہ نہیں ہونے والا

غریبی کاٹنا آساں نہیں ہے

وہ ساری عمر پتھر کاٹتا ہے

مٹھی سے ریت پاؤں سے کانٹا نکل نہ جائے

میں دیکھتا رہوں کہیں دنیا نکل نہ جائے

بدن میں سانس لیتا ہے سمندر

مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے

میرے اس کے بیچ کا رشتہ اک مجبور ضرورت ہے

میں سوکھے جذبوں کا ایندھن وہ ماچس کی تیلی سی

بڑی بھولی ہے خرچیلی ضرورت

شہنشاہی کمائی مانگتی ہے

خدا کے غائبانے میں کسی دن

سنو کیا شہر سارا بولتا ہے

نہ جانے کیا لکھا تھا اس نے دیوار برہنہ پر

سلامت رہ نہ پائی ایک بھی تحریر پانی میں

نہ جانے کتنے بھنور کو رلا کے آئی ہے

یہ میری کشتیٔ جاں خود کو پار کرتی ہوئی

وہ ایک آئنہ چہرے کی بات کرتا ہے

وہ ایک آئنہ پتھر سے ہے زیادہ کیا

یہ میرا خاکداں رکھا ہوا ہے

اسی میں آسماں رکھا ہوا ہے

جزیرے اگ رہے ہیں پانیوں میں

مگر پختہ کنارا جا رہا ہے

روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں

ہنستا ہوں تو ڈھ جاتے ہیں کہسار مری جاں

شام کے تیر سے زخمی ہے خورشیدؔ کا سینہ

نور سمٹ کر سرخ کبوتر بن جاتا ہے

جو دن ہے خاک بیاباں جو رات ہے جنگل

وہ بے پناہ مرے گھر سے ہے زیادہ کیا

Recitation

بولیے