خورشید اکبر کے اشعار
ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی
یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے
-
موضوع : وطن پرستی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
درد کا ذائقہ بتاؤں کیا
یہ علاقہ زباں سے باہر ہے
چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں
آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہاں تو رسم ہے زندوں کو دفن کرنے کی
کسی بھی قبر سے مردہ کہاں نکلتا ہے
قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے
آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دنیا کو روندنے کا ہنر جانتا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ دنیا کے بعد کیا
زندگی! تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا
کیسی کیسی تری تصویر نکل آئی ہے
سسکتی آرزو کا درد ہوں فٹ پاتھ جیسا ہوں
کہ مجھ میں چھٹپٹاتا شہر کلکتہ بھی رہتا ہے
بدن میں سانس لیتا ہے سمندر
مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرے اس کے بیچ کا رشتہ اک مجبور ضرورت ہے
میں سوکھے جذبوں کا ایندھن وہ ماچس کی تیلی سی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں
آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے
دلیلیں چھین کر میرے لبوں سے
وہ مجھ کو مجھ سے بہتر کاٹتا ہے
خود سے لکھنے کا اختیار بھی دے
ورنہ قسمت کی تختیاں لے جا
دل ہے کہ ترے پاؤں سے پازیب گری ہے
سنتا ہوں بہت دیر سے جھنکار کہیں کی
کشتی کی طرح تم مجھے دریا میں اتارو
میں بیچ بھنور میں تمہیں پتوار بناؤں
سلگتی پیاس نے کر لی ہے مورچہ بندی
اسی خطا پہ سمندر خلاف رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ جانے کتنے بھنور کو رلا کے آئی ہے
یہ میری کشتیٔ جاں خود کو پار کرتی ہوئی
مٹھی سے ریت پاؤں سے کانٹا نکل نہ جائے
میں دیکھتا رہوں کہیں دنیا نکل نہ جائے
مرثیہ ہوں میں غلاموں کی خوش الہامی کا
شاہ کے حق میں قصیدہ نہیں ہونے والا
روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں
ہنستا ہوں تو ڈھ جاتے ہیں کہسار مری جاں
سمندر آسماں اس پر ستاروں کا سفینہ
مرا مہتاب غم ہے بیکرانی دیکھنے میں
اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو
کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ جانے کیا لکھا تھا اس نے دیوار برہنہ پر
سلامت رہ نہ پائی ایک بھی تحریر پانی میں
شام کے تیر سے زخمی ہے خورشیدؔ کا سینہ
نور سمٹ کر سرخ کبوتر بن جاتا ہے
یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں
میں کس کی آنکھ کا پانی ہوں کس پتھر میں رہتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ ایک آئنہ چہرے کی بات کرتا ہے
وہ ایک آئنہ پتھر سے ہے زیادہ کیا
سہل کیا بار امانت کا اٹھانا ہے فلک
میں سنبھلتا ہوں مرے ساتھ سنبھلتی ہے زمیں
جو دن ہے خاک بیاباں جو رات ہے جنگل
وہ بے پناہ مرے گھر سے ہے زیادہ کیا