احمد حسین مائل کے اشعار
مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج
دور سے یوں دیا مجھے بوسہ
ہونٹ کی ہونٹ کو خبر نہ ہوئی
پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
آئینہ دیکھ کے منہ چوم لیا کرتے ہیں
-
موضوع : آئینہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اگرچہ وہ بے پردہ آئے ہوئے ہیں
چھپانے کی چیزیں چھپائے ہوئے ہیں
جتنے اچھے ہیں میں ہوں ان میں برا
ہیں برے جتنے ان میں اچھا ہوں
نیند سے اٹھ کر وہ کہنا یاد ہے
تم کو کیا سوجھی یہ آدھی رات کو
جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ
ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض
محبت نے مائلؔ کیا ہر کسی کو
کسی پر کسی کو کسی پر کسی کو
رمضاں میں تو نہ جا رو بہ رو ان کے مائلؔ
قبل افطار بدل جائے گی نیت تیری
توبہ کھڑی ہے در پہ جو فریاد کے لئے
یہ مے کدہ بھی کیا کسی قاضی کا گھر ہوا
تم کو معلوم جوانی کا مزا ہے کہ نہیں
خواب ہی میں کبھی کچھ کام ہوا ہے کہ نہیں
کھول کر زلف مسلسل کو پڑھی اس نے نماز
گھر میں اللہ کے بھی جال بچھا کر آیا
غیر کا حال تو کہتا ہوں نجومی بن کر
آپ بیتی نہیں معلوم وہ نادان ہوں میں
میں ہی مومن میں ہی کافر میں ہی کعبہ میں ہی دیر
خود کو میں سجدے کروں گا دل میں تم ہو دل میں تم
وہ رات آئے کہ سر تیرا لے کے بازو پر
تجھے سلاؤں بیاں کر کے میں فسانۂ عشق
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم گلے مل کر جو کہتے ہو کہ اب حد سے نہ بڑھ
ہاتھ تو گردن میں ہیں ہم پاؤں پھیلائیں گے کیا
وعدہ کیا ہے غیر سے اور وہ بھی وصل کا
کلی کرو حضور ہوا ہے دہن خراب
واعظ کا اعتراض یہ بت ہیں خدا نہیں
میرا یہ اعتقاد کہ جلوے خدا کے ہیں
مسلماں کافروں میں ہوں مسلمانوں میں کافر ہوں
کہ قرآں سر پہ بت آنکھوں میں ہے زنار پہلو میں
جو آئے حشر میں وہ سب کو مارتے آئے
جدھر نگاہ پھری چوٹ پر لگائی چوٹ
-
موضوع : آنکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ساری خلقت راہ میں ہے اور ہو منزل میں تم
دونوں عالم دل سے باہر ہیں فقط ہو دل میں تم
نئی صدا ہو نئے ہونٹ ہوں نیا لہجہ
نئی زباں سے کہو گر کہوں فسانۂ عشق
ناز کر ناز ترے ناز پہ ہے ناز مجھے
میری تنہائی ہے پرتو تری یکتائی کا
مٹی کچھ بنی کچھ وہ تھی کچھ ہوئی کچھ
زباں تک مری داستاں آتے آتے
کیا آئی تھیں حوریں ترے گھر رات کو مہماں
کل خواب میں اجڑا ہوا فردوس بریں تھا
بند قبا میں باندھ لیا لے کے دل مرا
سینہ پہ اس کے پھول کھلا ہے گلاب کا
ہے حکم عام عشق علیہ السلام کا
پوجو بتوں کو بھید کچھ ان میں خدا کے ہیں
میرا سلام عشق علیہ السلام کو
خسرو ادھر خراب ادھر کوہ کن خراب
گر بس چلے تو آپ پھروں اپنے گرد میں
کعبے کو جا کے کون ہو اے جان من خراب
جلسوں میں خلوتوں میں خیالوں میں خواب میں
پہنچی کہاں کہاں نگہ انتظار آج
جا کے میں کوئے بتاں میں یہ صدا دیتا ہوں
دل و دیں بیچنے آیا ہے مسلماں کوئی
کچھ نہ پوچھو زاہدوں کے باطن و ظاہر کا حال
ہے اندھیرا گھر میں اور باہر دھواں بتی چراغ
دنیا نے منہ پہ ڈالا ہے پردہ سراب کا
ہوتے ہیں دوڑ دوڑ کے تشنہ دہن خراب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ بزم میں ہیں روتے ہیں عشاق چو طرف
پانی ہے گرد انجمن اور انجمن میں آگ
چاک دل سے جھانکئے دنیا ادھر سے دین ادھر
دیکھیے سب کا تماشا اس شگاف در سے آپ
ہنگام قناعت دل مردہ ہوا زندہ
مضمون قم اعجاز لب نان جویں تھا