Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ambareen Haseeb ambar's Photo'

عنبرین حسیب عنبر

1981 | کراچی, پاکستان

مشاعروں میں بے انتہا مقبول پاکستانی شاعرہ

مشاعروں میں بے انتہا مقبول پاکستانی شاعرہ

عنبرین حسیب عنبر کے اشعار

3.4K
Favorite

باعتبار

تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا

کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک

اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں

انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے

کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل

میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی

اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب

ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی

اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے

ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے

وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا

مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم

دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی

ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا

ہزار خوف مسلط رہے ہیں انساں پر

مگر ہمیں تو ہمی سے ڈرا دیا گیا ہے

پیروی سے ممکن ہے کب رسائی منزل تک

نقش پا مٹانے کو گرد راہ کافی ہے

تشہیر تو مقصود نہیں قصۂ دل کی

سو تجھ کو لکھا تیری نشانی نہیں لکھی

ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ

تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی

محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے

در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا

زندگی میں کبھی کسی کو بھی

میں نے چاہا نہیں مگر تم کو

عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے

زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے

اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی

ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا

تمہاری یاد کا چہرہ ہمارے درد کا رنگ

نکھر گئے ہیں سبھی اشک بار ہونے سے

ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے

نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم

عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت

خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے

دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں

مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں

مانوس بام و در سے نظر پوچھتی رہی

ان میں بسے وہ لوگ پرانے کہاں گئے

لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے

سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا

جو تم ہو تو یہ کیسے مان لوں میں

کہ جو کچھ ہے یہاں بس اک گماں ہے

کیا خوب تماشہ ہے یہ کار گہ ہستی

ہر جسم سلامت ہے ہر ذات ادھوری ہے

فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے

پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں

دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے

خواب و خیال سے وہ زمانے کہاں گئے

مجھ میں اب میں نہیں رہی باقی

میں نے چاہا ہے اس قدر تم کو

اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں

ایک وحشت ہے کہ تعبیر ہوئی جاتی ہے

بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو

اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں

تعلق جو بھی رکھو سوچ لینا

کہ ہم رشتہ نبھانا جانتے ہیں

بھول جوتے ہیں مسافر رستہ

لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے